( بِسمہ اللہ الرحمن اِکرحیم )
( پیارے ابو جی کے نام مانو کا خط)
اسلام عیکم: میں خیریت سے ہوں اور مجھے یقین ہے اللہ تبارک تعالٰی نے آپ کو اپنے پیارے نبی (صلّی اللہ علیمہوآلہ وسلم) کے انعام میں جنت میں جگہ دی ہوگی۔ اپنے (رُسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسّلم) سے عشق کر نیوالوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ۔
“ کی محمدّ سے وفا توُ نے ہم تیرے ہیں یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں”
آپ کی عزت شہرت دولت اُسی ایک محبت کی دین تھی جو آپ کو اپنے پیارے نبی (محدّ مصُطفےٰ صلّی اللہ علیہ وآ وسلّم) سے تھی۔ آپ ہی نے کہا تھا۔
“ اَکھیاں والے رکھ دے نین پہچان محمدّ دی انھیاں دی بلاجانیں کی شان محمدّ دی”
اللہ نے آپ کو جہان فانی میں بھی سُرخروکیا اورمجُھے یقین ہےاُس زات باری تعالی نے دُوسرے جہان میں بھی آپ کی لاج رکھی ہوگئ۔ابو جی آپ کی وفات کے 31اکتیں سال بعد بھی آپ کا نام اور کام زنذہ ہے،یہ بات آپکی اولاد کے لئے باعت فخر ہے آپکی وراثت جاگیریں نہیں عزّت ہے جس کےلئے ہم سب آپ کے مشکوُر و ممنون ہیں۔اِس بات کا ادراک مجھےاُس وقت ہوا جب چند Students کے ساتھ EVER NEW سٹوڈیو جانے کا موقعہ ملا۔وہاں جس شخص نے بھی سنُاکہ میں حزیں قادری صاحب کی بیٹی ہوں تو اُن کی محبت اور شفقت دیکھنے والی تھی،ہر کسی نے مُجھے آپ کا کوئی نہ کوئی گُزرا واقع ضرور سنایا۔جسئے کوئی مُرید اپنے مُرشد کی کرامات کا حال سُنا رہا ہو ۔کسی نے آپ کے تین Pens رکھنے والی بات سُنائی توکِسی نے، شہباز کرۓ پرواز، لکھنے کا قصہ گویا آپ کی باتیں یہاں LEGENDS کیصوُرت اختیار کر چکُی ہیں۔ مجھے جن لوگوں سے یہاں ملنے کا اتفاق ہوا یہ صاحبان خود LIVING LEGENDS ہیں۔جن میںDIRECTOR مسعود بٹ،الطاف حسین،داؤد بٹ صاحب (مرحوم) پرویزکایم صاحب کے علاوہ اور بہت سارے شفیق اور مہربان چہرے تھے۔اِن سب نےسرپر ہاتھ رکھ کر مجھے جو دُعائیں دیں میں اُنھیں کبھی بھول نہیں سکتی۔ اِس روز میری ملاقات ایورنیو سٹوڈیو کے روُح و رواں جناب سّجادگُل صاحب سے ہوئی میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُن سے اِنڑویوکیا۔اُنھوں نے مصروفیات کو پس لپشت ڈال کر ہمیں اچھاضاصاوقت دیا۔جس کے لئے ہم سب اُن کے مشکور ہیں۔اُس روز میری کفیتاُس شخص جسی تھی جو چاند پر چل رہا ہو۔GRAVITATION PULL سے آزاد۔مجھے یوں محسوس ہورہا تھاجئس میں سلطلنتکوہ قاف کی ملکہ ہوں اور یہاں کے باسی یہ پریاں اور دیو میرے ساتھ تعظیم و تکرہم سے پیش آرہے ہیں۔یہ جن صاحبوں کا میں نےاوپر نام لیا ہے یہ پاکستان فلم انڈسڑی کے دیو ہی تو ہیں اُس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود کو آپ کے کام پر RESEARCH کےلئے وقف کردوں۔سب سے پہلے میں نے “WEBSITE “پر کام کرنا شروع کیا اور “YOUTUBE “پر آپ کے CHANNEL “حزیںقادری کے بول”بنایا یہ نام مجھے اِس لئے بھی پسند ہے کہ آپ کی اولاد کو بھی آپ کے چاہنے والے حزیں قادری کے بول ہی کہتےتھے۔
بقول ارسطو( COMEDY ) طربید، کا لفظ (KOME ) سے بنا جِس کا مطلب “ گاؤں” (Village ) ہے۔ جہاں کھیتوں سےفصلیں پانے کی خوشُی میں ہسنی مذاق سے بھر پور گیتوں اور حرکتوں سے لوگ ایک دوسرے کو خوش کرتے تھے۔اُس عہد کا سب سے بڑا طنز و مزاح نگار “Aristophanes “ تھا۔جس کے ڈراموں میں یونان کے لوگوں کی حماقتیںعادات و خصائل کمزوریاں کردار بن کر چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ہندو“ Mythology “ جو کہ یونانی تہذیب سے پہلے یا اُس کی ہم عَصر مانی جانی ہے،اُس میں اِنسان کی نو کیفیات بتائی گئی ہیں،جس میں تیسری کیفیت “ہاسہ” یعنی مزاح ہے۔گویا طنز و مزاج انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا آج دور حاضر تک پہچا ہے۔ میرا یہ مضمون فلمی کامیڈی میں اسپیشلی ظریف صاحب کے Contribution پر ہے،تو بات فلم کی کامیڈی سے شروع کرتے ہیں۔ جس میں سب سے پہلا نام چارلی چپلین کا آتا ہے جو 1889 میں لندن یوکے(UK) میں پیدا ہیوۓ، اُن کےکرداروں میں بظاہر ایک یکسانیت سی نظر آتی ہے جس میں غریب معصُوم، احمق، مگر دردِ دل رکھنے والا۔ ایک ایساہیرو جِسکا مقابلہ غربت کے ساتھ ساتھ وقت کے طاقتور لوگوں سے رہتا ہے اور وہ احمقانہ حرکات کے دوران غیرمحسوس طریقے سے اپنے دشمنوں کی چالوں کو ناکام کیے جانا ہے۔اُن کی اِن شارٹ فلموں میں دنیا بھر میں مقبولیتکے ریکارڈ قاۂم کیے یہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ Camera کے سامنے کردار کی حرکات سکنات کہانی بیان کرتی تھیں یعنی یہ ایکشن کامیڈی تھی پوری دنیا مطلب پوری دنیا چارلی چپلین کے نام سے واقف ہے شاۂد کسی فلمی ہیرو کو اُن جیسی شہرت نصیب ہوئی ہو۔ آخر میںامریکن سیاست کی نظر ہوکر Switzerland میں جابسے اور وہیں پر 25 دسمبر 1977 کرسمس کے روز وفات پائی۔
Laure And Hardy
اِن دو کرداروں نے بھی دنیا میں بہت شہرت پائی جب جب کوئی فلم کامیڈی کی بات کرۓ گا تو اِن دو کرداروں کے ذِکرکے بغیر وہ بات ادھَوری رہے گی۔ اُچھا یہ بھی ہمارے شہرہ آفاق ڈرامے “ الف نون” کی طرح موٹے اور پتلے کی جوڑیتھی۔ یہاں اِن کِرداروں میں رفیع خاور ( ننھا ) صاحب اور کمال احمدرضوری صاحب جیسے باکمال فنکاروں نے اپنیاعلٰی درجے کی ادا کاری سے اِس شو کو چار چاند لگا دئیے تھے کہ آج بھی دیکھیں تو طبعیت باغ باغ ہو جاتی ہے۔اسیے کرداروں کو کبھی موت نہیں آتی۔Laure And Hardy میں جو تھوڑے سے پتلے اور ٹھِگنے ہیں اُن کا نام Arthur Stanly Jefferson تھا۔ اور دوسرےموٹے ایکڑ Norval Hardy تھا۔ ان دونوں کی شراکت داری میں تقریباً سو 100 فلمیں بنیں۔
THREE STOOGES
اِس ٹیم نے 1922 سے 1970 تک کام کیا دنیا بھر میں شہرت کمائی یہ بھی ایکشن کامیڈی کی لڑی میں سے تھے۔ نامسے ظاہر ہے کہ تین کرداروں پر مشمتل ایک ٹیم تھی، اِن کی فلموں کو آج کی زبان میں ہم شارٹ فلم ہی کہیں گے۔ اِن کادارانیہ بیس پچیس مِنٹ ہوتا تھا، HOLLYWOOD کی زیادہ تر فلمیں دو گھنٹے سے کم وقت ختم ہو جاتی تھیں،جنسنیماؤں کو تین ان کی نمائش ہوتی تھی اُن کی یہ مجبوری تھی کہ فلم بینوں کو تین گھنٹے تک کہیے “Engage “ رکھیں تو اصل فلم شروع ہونے سے پہلے اِنتظامیہ اِشتہاروں کے بعد وقت کی مناسبت سے Laurel And Hardly یاThree Stooges دکھا کر وقت کی کمی کو پورا کیا کرتی تھی، اِس طرح پاکستان کے فلم بینوں سے چارلی چپلیں،Laurel And Hardly یا Three Stooges کا تعارف ہوا۔ پاکستان ٹیلی ویثرن وجود میں آنے کے بعد گاھے بگا ہے۔ اِنلوگوں کی فلمیں ٹی وی پر دکھائی جانے لگیں۔بلا شعبہ ٹی وی ناظرین ان فلموں سے بہت محظوظ ہوۓ، اور پھر
“InterNet “ کے بعد تو ایسی فلمیں ڈرامے اِنسان کی اُنگلی کی ہلکی سی کلک کے منتظر ہیں۔Three Stooges کی شارٹ سٹوریپر بننے والی فلموں کی تعداد تقریباً 190 ہے۔اِن تین کرداروں کو مختلف اَدوار میں چار فنکاروں نے ادا کیا جن کے نام یہہیں۔
- Moses Horowitz
- Samuel Horowitz
- Laurence Jean Burg
- Chemp Harwar
JERRY LEWIS
کامیڈین سنگر فلم میکر، ایک عرصے تک “ Hollywood” کی فلموں دھوم مچائی بہت شہرت پائی لیکن جو مقبولیت،شہرت اور محبت چارلی چپلن کےحعےمیں آئی “ جیری لوئس” اُس کا عشر عشیر بھی نہ پاسکے۔ اس کے باوجود فلمبینوں ایک پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ اُن کی بھی جوڑی بنی اِن کے پارٹنر اچھے سنگر اور ادا “ Dean Marten” تھے۔ اِس جوڑی نے بہت سی فلموں میں اکھٹے کام کیا اور داد و صول کی۔ جیری لوئس ( Jerry Lewis ) ایکشن کے ساتھ ساتھ باتوں میں بھی مزاج پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ بولنے کا خاص انداز تھا جوبہت پسند کیا جاتا تھا، 2017 میں وفات پائی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ منّورظریف صاحب Jerry Lewis سے متاثر تھے اور کہیں کہیں اُن کی ادا کاری میں بھیاِس کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔مندرجہ بالا جو کچُھ بھی میں نے لکھا اِس کا مقصد اُن لوگوں کو یاد کرنا اور اُنہیں خاج تحسین پیش کرنا ہے۔ جنکی سکرین پر آمد کروڑوں غم زدہ اِنسانوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ ظریف صاحب بھی اُنہیں میں سےایک تھے۔ نئے نئے بنے پاکستان میں ہندوستان کی تقیم سے جو گھماؤ لگے تھے۔ اُس میں کھل کر ہنسنا تو دَرکنامسُکرانے کو بھی کِس کا جی چاہتا ہوگا، ایسے میں فلموں کا بننا بہت بڑی بات تھی۔ اِن ابتدائی فلموں میں میںجِس ادا کار نے اپنی مزاحیہ اداکاری اور گلوکاری سے پاکستانہوں کے دل میں جگہ بنائی اُن کا اصلی نام تو محمدصدیق تھا لیکن فلمی نام ظریف تھا، طنزومزاح کی ہزاروں شاخیں ہو سکتی ہیں لیکن فلمی کامیڈی میں دو طرح کے “ SCHOOL OF THOUGHT “ ہیں۔ پہلا حرکات و سکنات سے مزاح پیدا کرنا، دوسرا بر محل پھڑکتا ہو جملہ کہنا۔پہلے کو لکیش کامیڈی اور دوسرے کو جگیت، پھبتی وغیرہ کہتے ہیں جس کے لیے حاضر جوابی اور wihy ہونا لازم ہےظریف صاحب اِن دو میدانوں میں اپنی مشال آپ تھے۔ وہ ڈائیریکڑ کے ایکشن کہنے کے بعد رائیڑ کے لکھے جملوں میںخود سے اضافہ کردیا کرتے تھے جو یقیًن Scene کی منابست سے بر محل ہوتا اور جسے فلم بینوں کی طرف سے مکملپزیرائی ملتی۔
9 April1926dateBirth
19مارچ 1991 کوسا دنیا س رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ حزیں قادری جن کا اصل نام بشر احمد تھا۔ حزیں قادری ان فنکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی انتہاری بھر پور مکمل اور باوقار گزاری ۔ ان کی تعلیم 8 جماعت تک تھی۔ ان میں خدادادصلاحیت تھیں ۔برسہابرس تک صرف ان کا نام ہی پنجابی فلموں کی کامیابی ضمانت بنا ۂے
حزیں قادری1926 اپریل 9 کو گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں
ان کے والد کا نام میاں غلام حسین
غریب اور محنت کش انسان تھے۔ حزیں قادری نے اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے 8 تک تعلیم حاصل کی ۔شاعری کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا۔ اور یہ اسکول میں بھی اکثر انپے استادوں کو انپے شعر سناتے رہتے تھے۔ ان کا پہلا کارنامہ یہ تھا۔ کہ انہوں نے دوران طالب علمی (جو نظمیں لکھیں ) اس پر ان کے استادوں نے
ان کے روش مسقبل کی پیش گوئی
کی تھی اور انہیں انعامات سے بھینواز۔ ان کے والدین انہیں عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ اس لئے انہیں ایک دینی مدرسہ میں بھی داخل کیا گیا۔لیکن حزیں قادری کا دل وہاں بھی نہ لکا۔
تحریر:
عاصہ قادری
۔ ایک ہندو فلم ساز کی فلم “ٹوٹے تارے “ میں 4گیت لکھنے کا موقع ملا۔4 مارچ 1940 ء گلوکارہ : زینت بیگم کی آواز میں موسیقار نذیر جعفری کی کمپوز کی ہوئی دھن میں حزیں قادری کا لکھا ناگا “آنکھ کے آنسو دل کے چھالے ، واپس لے لے دینے والے “ ریکارڈ ہوا یہ فلم بوجہ لیٹ ہوگئ ۔مگر حزیں قادری کی جدوجہد جاری رہی۔ آل انڈیا ریڈیو میں حزیں قادری کو ایک چانس ملا ، 1946 ء میں حزیں قادری کی لکھی ہوئی پہلی نعت “اکھیاں والے رکھدےنیں پہچان محمد دی انیاں دی بھلا جانیں کیہہ شان محمد دی “ ریڈیو پر سلسلہ چل نکلا مگر حزیں قادری فلم اسٹوڈیو کا چکر لگاتے رہے۔ٹوٹے تارے کے فلمساز نے فلم کی عکسبندی کا پروگرام بنایا تو تقسیم ہند ہوگئ اور ہندو فلمساز ہندوستان چلے گئے اور حزیں قادری کے گانوں کی مخت رائیگاں گئ۔ مگر حزیں قادری نے ہمت نہ ہاری ۔اور
INTRODUCES
حزیں قادری صاحب نے اپنے چالیس پنتالیس سال career
میں بہت سارے لوگوں کو فلم انڈسٹری
کروایا تھاINTRODUCES میں
۔یہ فطری بات تھی اور انڈسڑی کی
روایات میں شامل تھی کیونکہ یہاں کوئی نہ کوئی معاون و مددگاین کر آپ کو پہلی سیڑھی تک لاتا ہے۔اس کے بعد آپ کی صلاحیتیں اور Talent کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ جسے دکھانے کا قدرت آپ کو زبردست موقعہ مہیا کرتی ہے۔حزیں قادری صاحب کو حزیں قادری بنانے میں فلم سیاز اسلام الدین شامی اور ماضی کے ریڈیو فلم تھپئڑ کے آرٹسٹ اور بہترین COMEDIAN جناب ظریف صاحب کی مدَر اور کوشش شامل تھی۔یہ ایک طویل کہانی ہے جو کسی اور مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ حزیں قادری صاحب نے اپنی پہلی کامیاب فلم “ پاٹے خاں” موسیقار اخترحسین اکھیاں کو Introduce کروایا تھا۔جس کا برملا اظہار جناب اخترحسین صاحب نے اپنے ایک PTV کو دئیے گئے انیڑویو میں کیا تھا۔
۔ فلم بنانے کی کچھ حدود وقیود ہوتی ہیں۔ ان میں رہتے ہوۓ انھوں نے جو مثقبت لکھیں انھکا ایک ایک شعر حاضر ہے۔
1۔ پاکپتن تے آن کھلوتی بیڑی میری بنے لا
2۔حق ہوبےشک باہو۔اک نظر کرم دی تک باہو۔
3۔شہباز کرے پرواز تے جانے راز دالاں دے ۔
4۔بری بری امام بری میری کھوٹی قسمت کرو ہری۔
5۔اسیں آن قلندری دیوانے لج پال دے۔
علی دے گھرانے محمد دی آل دے۔
ققآج ہمارا موضوع فلموں میں تکیہ کلام کا استعمال ہے۔اس قطع نظر اس کے کہ فلم اردو ہے یا پنجابی ایک زمانے میں اچھی فلم کی پہچان اچھے گانے خوبصورت کہانی اور زوردار مکالمے ہوا کرتے تھے۔ لوگ فلم دیکھتے ہوۓ سریلے نغمات کے ساتھ ساتھ خوبصورت فقروں پر بھی داد دیا کرتے تھے۔جیسے ہی فلم کے کسی کریکٹر کے منہ سے کو ئی اچھا فقرہ ادا ہوتا سارا سینما ہال واہ واہ سے گونج اٹھتا یہ داد صرف مکالمہ لکھنے والے کے لیے ہوتی تھی سنیما ہال کی اس واہ واہ نے کہانی اور مکالمہ لکھنے والوں میں ایک صحت مند اور مشبت مقابلے کی سی فضا پیدا کردی جو آہستہ آہستہ انڈسڑی ، کیلۓ بہت مفید پابت ہوئی۔ آنے والے 25 ،30،سال پاکستانی فلم بنیوں کو بہت اعلی درجے کی کہانیاں اور مکالمے اور گانے سننے کو ملے۔ تکیہ کلام یہ دو لفظوں کا مرکب مکالمے کا ہی حصہ ہے دنیا میں بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں ایک جملے یا ایک چھوٹے سے فقرے کو بار بار دہراتے رہتے ہیں جیسے (مطلب یہ کہ) یا پھر ( کیا نام کہ)( کہتے ہیں) بنیادی طور پر فلم کی کہانی بھی بہت سارے کرداروں کے گر
دگھومتی ہے۔جن میں
تکیہ کلا
تکیہ کلام یہ دو لفظوں کا مرکبمکالمے کا ہی حصہ ہے دنیا میں بہت سے لوگاپنی روز مرہ کی گفتگو میں ایک جملے یا ایک چھوٹےسے فقرے کو بار بار دہراتے رہتے ہیں جیسے (مطلب یہ کہ) یا پھر ( کیا نام کہ)( کہتے ہیں) بنیادی طور پر فلم کی کہانی بھی بہتسارے کرداروں کے گر دگھومتی ہے۔جن میں اچھے کردار بھی ہوتے ہیں۔اور برے بھی دنیا سے بے زار بھی اور دنیا دار بھی ہنستےمسکراتے چہرے بھی اور روتی بسوتی ہوئی صورتیں بھی ۔ انھیں کرداروں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی بات میں وزن پیداکرنے کے لئے بھاری بھر کم تکیہ کلام کا اہتمام کرتے ہیں یہ کردار ایسے تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں جو صرف فلم میں ہی قابلاستعمال ہوۓ ہیں عام زندگی میں نہیں لیکن یہ فلم دیکھنے والوں بہت مزہ دیتے ہیں ۔
اس طرح فلم میں ہنسنے ہنسانے والے بھی اکثر تکیہ کلام کا سہارا لیتے ہیں جسیے سن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے ۔
مجھے یہ پتہ نہیں کہ فلموں میں تکیہ کلام کی ابتدا کیسے ہوئی لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں اسے انتہا تک پہچانے والے حزیںقادری تھے۔ان کی لکھی ہوئی شاہد ہی کوئی فلم ایسی ہو جس میں ان کے ایک دوکردارتکیہ کلام کے بغیر سکرین پر آۓ ہوں ۔ ان کےلکھے ہوۓ وہ فقرے جو تکیہ کلام کہلاۓ اتنے مشہور ہوۓ کہ آج بھی فیصل آباد کے کسی بازار سےگذر تے ہو یالاہور کی کسی گلیکی نکڑ پر کھڑے ہیوۓ یا گوجرانوالہ کسی تکہ فروشکی ریڑی کے قریب سے ان
۱۔آوازوں کی بازگشت سنائی دے جاۓ گی۔
۲۔آوے میں ٹبرکھاجاواں تے ڈکار نہ ماروں۔
۳۔بی بی جی پانی آیا جے
۴۔ کحچھ لےدھاگا پی تمباکو۔
۵۔ میں تے چھڈاں گا بین کے۔
۶۔ تیری لاش نوں وی مچھیاں ای کھان گیا۔
۷۔جنے ساڈھے نال متھالایا اوہدی ماں نیں وین ای پایا۔
۸۔لالہ میں تے کہنا جواکھیڈ۔
۹۔ واقفیت وداکے وخت ای پالیا اے
۱۰۔اوے میں کشت کٹ کے آیاں میں نشت ماردیاں ۔ اور ایک لمبا سلسلہء تکیہ کلام
۱۱۔میں تے گل کرتی کلیڑکٹ
۱۲۔آفریں ایں۔
حزیں قادری صاحب کے Film Industry سے منسلک اور غیر فلمی شاعروں سے نہایت خو شگوار مراسم تھے ۔ ان کا اپنے ہم عصروںسے ربط و رشتد بہت محبت بھرا اور گہرا تھا۔ وہ دام درم سنحنےکی مشال کے مطابق اپنے دور کے شاعروں کے کام آتے تھے۔ یہیوجہ تھی کہwriter Association کہ کئ بار صدر منتخب ہوۓ۔اور یہ وہ زمانہ تھا جب فلم انڈسڑی میں(Genius) نابغئہ رونگار لوگپاۓ جاتے تھے مشلا ۔ بابا عالم شاہ پوش ، استاد دامن، تنویرنقوی، فیاض ہاشمی، احمد راہی، ریاض شاہد، علی سفیان آفاقی، قتیلشفائی ، شپون رضوی، کلیم عثمانی ، جیب جالب، نیتر سوچ ، خواجہ پرویز ، اور کبھی کبھی ان میں ساعز صدیقی بھی شاملہوجاتےتھے۔
یہ ان ہی دنوں کی بات ہے۔ایک روز Evernew studio کے برآمدے سے حزیں قادری گذر رہے تھے کہ اچانک ان کی ملاقات احمدراہی صاحب سے ہوگئ دونوں بڑی گرمجوشی سے ملے احمد راہی صاحب نے مسکراتے ہوۓ کہا،یار حزیں تم نے میرے پانچ ہزار روپۓدہنے ہیں بولو یہ قرض کب اتارو گے،حزیں صاحب حیران رہ گۓ اور سوچنا شروع کردیا کہ میں نے یہ قرض کب لیا تھا۔پانچ ہزار کےتقاضے والی بات کئی اور لوگوں نے بھی سنی تو وہ بھی قریب کھڑے ہوگۓ ، خیر حزیں صاحب نے اپنا بٹوہ نکالتے ہوۓ راہی صاحبسے کہا، آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں ، لیکن مجھے صرف اتنا بتا دیں میں نے یہ رقم لی کب تھی۔یہ سن کر احمد راہیصاحب ایک زبردست قہقہ لگایا اور کہنے لگے ۔ یار حزیں کل رات میں دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا۔وہاں ایک مغنیہ نےتمھاراگانا:
وگدی ندی دا پانی اینج جاکے مڑنہیں آؤ ندا۔
جاکے جیویں جوانی۔
یہ بول سناکر راہی صاحب کہتے لگے یہ وہ خیال ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ میں نے اکثر اپنی نظموں میں اس خیال کوباندھنے کی کوشش کی ہے
جیۓ
میری ایک نظم کا شعر ہے۔
ترنجین دیاں سہیلیاں تے بیڑی دا پور کدی
نہ بہناں رل کے جہیڑ پانی اج پتنوں لنگھ جاناں اوہنے فیرنہ آوناں بھل کے
لیکن میرا شعربہت مشکل ہے اور تمھارےگانے کا مکھڑا نہایت آسان جو ہر کسی کی سمجھ میں آتا ہے۔ میں تمھیں اس گانے کی داددئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رات میں نے پتد نہں کتنی بار اس مغنیہ سے یہ گانا سنا اور تقریباً پانچ ہزار روپے ، تمھارے گانے کے بولوںکی نذر کر دئیے ۔
داد دینے کا یہ طریقہ اتنا خوبصورت تھا کہ قریب کھڑے ہر شخص کے ہونٹوں سے واہ واہ کے نعرے بلند ہونے لگے۔
شعر کہنے کا فن عنایت میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے ہر شاعر کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ آج ہماری گفتگو کا موضوع حزیں قادری صاحبکی شاعری اور کہانی لکھنے کے فن سے متعلق ہے، اس کے ساتھ ہم ماضی پر بھی ایک نظر ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ حزیںقادری صاحب کی شاعری ماضی کے کس شاعر سے ملتی جلتی ہے،تو جو پہلا نام ہمارے زہین میں آتاہے۔وہ اردو ادب کے پہلے آخریعوامی شاعر نظر اکبر آبادی صاحب کا ہے۔ ان کی نظمیں
“روٹیاں اور چپاتیاں”
“یا بنجارا نامہ”
اور
“فقیروں کی صدا”
حزیں قادری صاحب کی ایک کہانی “روٹی” جس پر اسی نام سے فلم بنی ،اس کہانی کا خلاصہ ہی یہ تھا۔ کہ انسان روٹی کیلے سبکچھ کرتا ہے کچھ بھی کرسکتا ہے
نظر اکبر آبادی اپنی نظم روٹی میں فرماتے ہیں۔
“کیڑے کسی کے لال ہیں روٹی واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب پہ دکھاتی ہیں روٹیاں
اسی سے ملتاجلتا حزیں صاحب کے ایک گیت ہے
ناں میرا پچھدے او دکھیا غریب دا
کرماں دا ماریاتے ہاریانصیب دا
روٹی دا سوال اے جواب جدا روٹی اے
وڈھے سارے لوکاں لئ اہیہ گل بڑی چھوٹی اے
فلم:
“یملاجٹ “ کا گانا
اہیہ جگ وانگ سرواں بندیا
یا فلم مورنی کا یہ گیت :
آج میلا تیرا اےتےکل کیسے ہو ردا
کٹی جاندےساہ پیچازندگی دی ڈور دا
نظم
یہ دونوں گیت نظیر اکبر آبادی کی “فقیروں کی صدا” جیسے ہیں جس میں فرماتے ہیں۔
تن سوکھا،کبڑی پیٹھ ہیوئی، گھوڑے پہ زیں دھروبابا
اب موت نقارہ باج چکا چلنے کی فکر کرو بابا
یا نظم ( بنجارا نامہ)
سب ٹھاٹھ پڑارہ جاوےگا،جب لا دچلےگا نبجارا
اسی طرح انُ کی کہانیوں میں بھی نظر اکبر آبادی کی نظموں کی جھلک نظر آتی ہے۔
اور یہ تین سو سال پہلے کے عوامی شاعر کو تین سو سال بعد کے ایک شاعر کا نظرانہ عقیدت ہے
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
لاہور کی فلم انڈسڑی کا آغاز 1925 میں بننے والی پہلی (خاموش) مکمل فلم Daughter Of To Day سے ہوا۔اس فلم سے لاہور کے دواداروں نے پورے ہندوستان سے داد وصول کی یہ تھے، ایم اسمائیل اور وجے کمار ۔ایم آسمائیل صاحب (بھا اسمائیل ) کے نام سےمشہو ہوۓ اور تقریباً سن 70 تک کریکڑ ایکڑ کے رول میں پاکستانی فلموں میں جلوہ افرور ہوتے رہے۔
خاموش کے بعد متکلم فلموں کا دور آیا، تو عبدالرشید کار دانے ہیررانجھا اور گوپی چند بنائیں ۔ جن کی دھوم ککلکتہ اور بمبئ تکپنچ گئ ، جہاں ایم اسمائیل (کیرو) کے کرلکڑ نے بہتریں کردار نگاری سے لوگوں کے دل جیتے وہیں رفیق غزنوی نے بحشیت موسیقار اپنے فن کالوہا منوایا ، لاہور فلم انڈسڑی کے ابتدائی دنوں میں امتیاز علی تاج ، رفیع پیرزادہ نے بھی فلموں میں اپنی Acting کےجوہر دکھاۓ جب عبدالرشید کار دار اور بھااسمائیل جسۓاور لوگ لاہور کو چھوڑ کر کالکتہ اور بمبئ کی فلم نگری ، ہجرت کرگۓتواس کے بعد لاہو کا فلم نگر اجڑ گیا، اور پنجابی فلمیں بھی کالکتہ سے بن کر آنے لگیں ان میں ، پنڈ دی کڑی، پوستی، اور ہیرسیال، جیسی فلمیں بھی تھیں۔
ہندوستان کی تقسیم سے چند سال پہلے لاہور میں دوبارہ سے چند ہندو فلم ساروں نے اس اجڑی نگری کو بسانے کا پروگرام بنایا۔ انمیں سرفہرست روپ کے شوری ، ڈی ایم پنچولی ، دیوان سرداری لال وعیرہ تھے۔ دیوان سرداری نے اپر مال پر نئے سٹوڈیو کی بنیادرکھی جس کا نام Super Sound Studio تھا۔ بعد ازاں یہی پنچولی سٹوڈیو کے نام سے مشہور ہیوا ، اس سٹوڈیو کی پیشکش (گل بکاؤلی) نے پورے ہندوستان میں زبردست بزنس کیا، اسی فلم میں پہلی دفعد برصغیر کے اُفق پر وہ ستارہ طلوع ہوا جس کیچکاچوند میں آج تک کمی نہیں آئی مادام نورجہاں جنھیں اُس وقت بےبی نورجہاں کے نام سے پردۂ سکریں پر متعارف کروایا گیا اورجن کی آواز نے بڑے بڑے موسیقار ل، اُستاد ، اور خان صاحبوں کے اوسان خطا کر دیۓ تھے، ایک دن اسی سٹوڈیو کی مالک بنیں ،برسوں پہلے جو Super Sound Studio کے نام پر وجود میں آیا تھا،پنچولی سٹوڈیو سے ہوتا ہوا شاہ نور سٹوڈیو بن گیا۔
تحریر:
عاصمہ قادری
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
لاہور کی اُجڑی فلم نگری کو دوبارہ بسانے کا سہرا دل سُکھ پنچولی کے سر ہے جس کی انتظامی اور کاروباری حلاجتوں نے لاہور کوبمبئ اور کلکتہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ یہاں بھی بہت اچھی فلمیں بننا شروع ہوگیں ، جس سے لاہور کے دوسرے کاروباری لوگ بھیاس طرف متوجہ ہوۓ۔اور یہاں دو تین اور نۓ سٹوڈیو زبان گۓ ۔ جن میں نیو اور ناردرن انڈیا سٹوڈیو نمایاں ہیں اُجڑے گھونسلوں کےپنچھیوں نے والپس لاہور کا رخ کیا، کمرہ مین بدری پرشاد برکت مہیرہ ، نورجہاں ، ایم اسمائیل ، ماسٹر غلام حیدر ، اجمل (نئ دریافت) پران وغیرہ کچھ غیر لاہوری اداکار بھی کلکتہ سے لاہور آۓ۔ان میں ، رمولا اور بمبئ کے director موتی بی گڈوانی تھے۔لاہور کی اندنوں بنی ہوئی دو فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا،خاندان اور چوہدری نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا ۔ خاندان اور چوہدری کیکامیابی کا سہرا دراصل تین فنکاروں کے سرُ تھا،کلکتہ کے نوجوان فلم اہڈیڑ شوکت حسن رضوی، جو ہالی وڈ کے تربیت یافتہ اہڈیڑ کےگُرو تھے، چوہدری ( پنجابی ) کی ہدایت کاری بھی تقریباً انھیں کے زمے تھی مگر ٹائٹل پر نام کسی اور کا تھا۔ شوکترضوی،نورجہاں، ماسٹر غلام حیدر کے علاوہ امتیاز علی تاج کی کہانی پر بنی اس فلم نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیۓ اور لاہورکو بھی ہندوستان میں فلم انڈسڑی کا مرکز بنا دیا۔ یہی وہ دور تھا جب حزیں قادری نے فلم انڈسڑی میں قدم رکھا، پروڈیوسروں کےدفتروں کے چکر اور ان کی دوتیں سال کی مشکل کے بعد اُنھیں ایک ہندو پروڈیوسر کی فلم میں گانا لکھنے کا چانس مل گیا فلم کا نام“دو آنسو ” تھا۔ اور گانے کے بول تھے۔
“ آنکھ کے آنسو پاؤں کے چھالے
واپس لےلے دنیے والے”
فلم ابھی زیر تکمیل ہی تھی کہ فسادات شروع ہوگۓ،ہندپروڈیوسر نے بھی اپنا بوریا بتسر باندھا اور ہندوستان چلا گیا ، اُس کینامکمل فلم فسادات کی آگ کی نظر ہوگئ ۔لاہور کی فلم نگری ایک بار پھر اُجڑگئ۔
تحریر :عاصمہ قادری.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
نۓ نۓ وجود میں آۓ پاکستان میں فلم سازی کاآغاز “شاہدہ” نامی فلم سے ہوا جسے ہدایتکار لقمان صاحب نے بنایا تھا، جو اسٹوڈیووغیرہ ہندوستان مالکان چھوڑ کر گۓ تھے۔ اُن کو نۓ مالکوں کی سرپرستی ملی اور بڑے نہیں تو چھوٹے پیمانے پر پاکستان میں فلمیںبننےلگیں، ایکڑ، ڈائریکڑ ، Tecnition، میوزک ڈایڑہکیڑ وغیرہ نے نئے سرے سے کمر کسی اور اس خود رو پھول کی آبیاری میں جُتگۓ۔
لاہور کی فلم نگری ایک بار پھر آباد ہوگئ، حزیں قادری بھی خم ٹھونک کر میدان عمل میں سرگرم ہوگۓ ، سن 1954 تک نغمہ نگار اورمصنف کی حیثیت سے لوگ اُنھیں پہچاننے لکے، پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں اُن کے ہم عصر زیادہ تر اُن سے بڑی عمر اور زیادہتجربہ کار تھے، فلمی نغمہ نگاری میں یدطولی رکھتے تھے، فلمی گیتوں میں ہر گیت Situation کے لحاظ سے لکھا جاتا ہے، جنcomedy ,tragedy love, hate گویا انسانی جذبات کے ہر پہلو کو گیت میں سموکر ایک سین (Scene) کی صورت میں دکھانے کے لئےموسیقار اور نغمہ نگار کی ضرورت پڑتی تھی، برصغیر کی فلموں میں یہ روائیت بھی ہالی وڈ سے ہی لی گئ تھی، مگر اسے پاکستاناور انڈیا میں بہت زیادہ پذیرائی ملی ، جس کے بعد یہاں سینکڑوں فلمیں اسیی بنیں جن کی کامیابی وکامرانی میں ان کے گیتوں کابڑا عمل تھا۔گیت نگاری میں جو شاعر پاکستان بننے سے پہلے بھی لکھ رہے تھے اُن میں نمایاں نام ، تنویرنقوی، باباعالم سیاہپوش،سیف الدین سیف،ایف ڈی شرف،جی اے چشتی،طفیل ہشیارپوری تھے۔جو مقبول و معروف ہوچکے تھے۔ان کے ساتھساتھ اُن شاعروں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی جو انپا مقام بنانے کے لئے شب و روز مخت کر رہے تھے۔ ان میں قابل ذکر یہ لوگتھے۔
حزیں قادری،احمد راہی ،وارث لدھیانوی، اُستاد دامن، ساغر صدیقی ، اسمائیل متوالا، گل زمان، خاور زمان ،مشہر کاظمی ،سکے دار ، ولی صاحب، اقیال حسین، اخترکاشمیری، نازش کاشمیری، میاں حفیظ، تپجاسگھصابر،قتیل شفائی ، بشیر نذر ، امرتاپریم، آغا پرویز ، عبدالمجید ، منظورجھلا۔
ان سب میں ایک قدر مشترک تھی کہ یہ سارے انفرادی طور پر اچھا لکھنے کی جستجو میں رہتے تھے۔
تحریر :
عاصمہ قادی.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
تاریخ گواہ ہے کہ ان کی کاوشوں سے پنجابی زبان کے ادب میں بھی گرانقدراضافہ ہوا جس کا پنجابی زبان کوصدیوں سے انتظار تھا۔ پنجابی زبان کے Classic ادب میں تو ہمارے پنجاب کے بزرگوں نے جھنڈے گاڑے ہوۓ تھے، جنمیں پیلو،حافظ برخودار، وارث شاہ، ہاشم نے منظوم داستانیں لکھ کر پنجابی زبان کی زیست بڑھائی ۔ وہیں پنجابکے صوفی شعرا میں شاہ حیسن، بلھےشاہ، سلطان باہو، اور میاں محمد صاحب جیۓصوفیوں نے اپنے کلام کے زدیعےلوگوں کو انسانیت کا درس دیا۔ اور یہی وہ ادبی سرمایہ ہے جس پر یہ پانچ دریاؤں کی سر زمین جتنا بھی فخر کرۓوہ کم ہے۔ ان قابل صد احترام LEGENDS کے کلام کو لوگ پڑھنے سے زیادہ سننے کو ترجیع دہتے تھے،جسے پڑھےلکھے لوگ ، مسجدوں ، چوپالوں اور نجی محفلوں میں نعتوں کی صورت میں ، کافی انگ میں سُٹایا کرتے تھے، اسیطرح کچھ شاعروں کے کلام کی دُھنیں یا طرزیں اسے پڑھنے والے لوگوں نے خود بنائیں تھیں جنھیں بہت زیارہمقبولیت حاصل ہوئی ، ان میں ہیر وارث شاہ ، سلطان العارضین حضرت باہو کا کلام ، میاں محمد صاحب کا سیفالملوک، شامل ہیں۔
پنجاب میں تعلیم کی طرف توجہ بہت کم دی گئ جس کی وجہ سے ہمارے دیہاتوں میں آج بھی ان پڑھ لوگوں کی کمینہیں ، اسی لیۓ لوگ خود پڑھنے کی بجاۓ سُن کر محظوظ ہوتے تھے، زمانوں بعد ریڈیو کی ایجاد نے انقلاب برپا کردیا، اس ایجاد کا تعلق بھی سُننے سنانے سے تھا۔ چوبیس گھنٹے (Broadcast ) ریڈیو نشریات کے لیۓ بہت زیادہمواد درکار تھا جس کا حل اس ادارے کے صاحب بست و کشاد نے فلمی موسیقی میں تلاش کیا،
یہ انقلاب در انقلاب والا معاملہ بن گیا، کیونکہ جب رہڈیو پر گانا نشر کیا جاتا تو گلوکار ، موسیقار ، اور شاعر کا نامبھی نشر یوتا، یہ وہ فنکار تھے جو ہمیشہ پردہ سکرین پر انپا نام دیکھ کر صبر شکر کر لیا کرتے تھے، جبBROADCAST ہونے کی وجہ سے ان کا نام دن میں باربار نشر ہونے لگا تو یہ لوگ بھی کانوں کے راستے سننے والوںکے دل تک ونہچ گۓ ، ان کے نصیب کا ستارہ بھی چمکنے لگا ، ان کے نام بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔اورانھیںں اَن دیکھے STARS کا درجہ مل گیا۔ میرا زاتی خیال ہے کہ ریڈیو ہی وہ “MEDIUM “ ہے جو اِن فنکاروں کیدائمی شہرت کا باعث بنا، حزیں قادری بھی انھیں میں سے ایک تھے
تحریر
عاصمہ قادری
9 April 1926 date of birth
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
لیکن اِس خاک بسر نوجوان کی کمندوں اُس وقت ستاروں کو چھوا جب سن پچپن 55 میں اِن کی ایک فلم “ پائےخاں” نے باکس آفس کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دہۓ۔ اور حزیں قادری کو پچھلی صفوں سے نکال کر پہلی صفکا مصنف اور نغمہ نگار بنا دیا، جس کے بعد اُھنوں نے پچھیے مڑ کر نہیں دیکھا، اِسی دور میں کہانی کاروں اورنغمہ نگاروں میں ہلکے پُھلکے مقابلے کا رُجمان شروع ہوا، پچاس سے ساٹھ کی دہائی تک پنجابی فلمیں کچھ زیادہنہیں بنی تو یہ مقابلہ کہانی کی بجاۓ گانوں تک محدود رہا ، مگر اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو فلمی نغموں میںاَچھی شاعری کی گونج سنائی دینے لگی، جِس کا آغاز 1949 میں ریلیز ہونے ولی فلم “ پھیرے” جِس میں جی اےچشتی صاحب کے گانوں نے دھوم مچادی،
مینوں رَب دی سونہہ تیرے نال پیار ہوگیا وے، چ٘نا س٘چی مُچی”
کی کیتا نقد یرے، کیوں رول سُٹے دو ہیرے”
پھر 1950 میں طفیل مشیار پوری صاحب کے فلم “ لارے” کے لکھے ہوۓ گیت کو بہت شہرت ملی۔ “ نی سوہے جوڑےوالیۓ اِک واری آجا سانیوں مکھڑا وفاجا”
اِسی طرح 1951 الف ڈی شرف صاحب کے دو نغمے بہت مشہور ہوۓ۔
“ تیرے مکُھڑے دا کالا کالا تل وے میرا کڈ کے لے گیا دل وے”
“ چن د ٹوٹیا وے دلاں دیا کھوٹیا”
اِن بڑے لوگوں کے درمیان حزیں قادری جگہ بنانے کے لیۓ سَر گرم تھے ، 1952 میں ایک ہی پنجابی فلم بنی جو حزیںقادری صاحب کی لکھی ہوئی تھی، “نتھ” لیکن باکس آفس پر یہ خاطر خواہ کامیابی حاصِل نہ کر سکی ۔ 1953 میںبننے والی فِلم “ شہری بابو “ کے دو گانے بہت مقبول ہوۓ جِس میں ایک گانا حزیں قادری صاحب کا “ گّلاں سُن کےماہی دے نال میریاں دوپٹہ بے ایمان ہوگیا”
دُوسرا گانا عالم سیاہ پوش صاحب کا تھا۔
“ بھاگاں والیو نام جپو سولانام”
شہری بابو کے اِس ایک گانے نے حزیں قادری کو انڈسڑی میں قدم جمانے کا موقعہ فراہم کر دیا، اور بڑے بڑے ناموں کےساتھ فِلم ساز اِس اُبھرتے ہوۓ شاعر اور مضف کے بارے میں بھی سوچنے پر مجُبور ہوگۓ ۔
تحریر:
عاصمہ قادری
Serial No: 15.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
1954 میں کوئی پنجابی فلم پردۂ سکرین کی زینت نہ بن سکی، 1955 …ہی وہ سال ہے جِس میں حزیں قادریصاحب نے اپنی قلم کا لوہا ہر خاص و عام سے منوالیا۔ اِس سال فلم “پاٹے خاں” کی کامیابی ، اللہ رَب العِزت کیطرف سے ایسا اِنعام تھا جس نے اُنھیں آنے والے بیس پِچس سال کے لۓ پنجابی فلم انڈسڑی میں قلم کی حکمرانیبخش دی۔
اِس سال اُن کا مقابلہ اپنے بڑے بھاہیوں جی اے چشی اور باباعالم سیاہ پوش کے نغموں کے ساتھ رہا، لیکن وہ،
“ کلّی کلّی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے “ اسی فلم کا دوسرا گانا،
“ موڑ لے مہار چناں رات ٹر چلی وے” اور تیسرا گانا فلم ہیر سے تھا۔
“اَساں جان کے میٹ لئ اکّھ وے” لکھ کر بازی لے گۓ۔ 1956 اِس سال طفیل ہشیار پوری۔ واسطہ اِی رب دا توں جایئںوے کبوترا، لکھ کر پورے سال پر چھا گۓ حالانکہ اِس سال مقابلے میں حزیں قادری ، احمد راہی ، تنویر نقوی، اسمائیلمتوالا، الیف ڈی شرف اور ولی صاحب تھے۔
1957 یہ سال پھر حزیں قادری صاحب کے نام رہا، میوزک کی دُنیا میں فلمنوراں کے تین گانوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
“پنچھی تے پردسی پیار جد پاؤندے فیرنہیں آؤ ندے، ہانیانہ جاویں دل لا کے”
دوسرا : “ویکھیا ہو وے نی کسے تکیا ہو وے اُچاجیا شملہ تے اکھ ستانی، ای تے میرے چن جۓ ڈ ھول دی نشانی”
اِس تیرے گانے نے پورے پنجاب کو حزیں قادری کا دیوانہ نبا دیا ،
“ تیرے بول نے تے میریاں نے بُلیاں تیری یاد نالپہلی واری کھلیاں، وے آے کے ٹر جان والیا راہیا”
1958 وہ سال تھا جو احمد راہی صاحب اور وارث لدھیانوی صاحب کے لۓ بہت اَچھا ثابت ہوا،
فلم “چھومنتر” کےلیۓ احمد راہی صاحب کا یہ گیت بہت مقبول ہوا۔
“ بُرے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا”۔
دوسرا گانا۔ “ میری چُنی دیاں ریشمی تنداں وے میں گھٹ گھٹ دینی آںگنڈاں “۔ اِس سال ایک گانا اقبال حیس صاحب کا بہت مشہور ہوا ۔
- ”سئیونی میرا دل دھڑ کے دل دھڑ کے نالے اکھ پھڑکے”۔
تحریر:
عاصمہ قادری
To be continue
From
Asma Qadri
Serial No: 16.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوۓ۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔
فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر :
1959 اِس سال “ دیسا دار راجہ میرے بابل دا پیارا “ لکھ کر سیف الدین سیف ، موسیقی کے آسمان پر چھا گئے ۔اب یہاں سنساٹھ سے سترکی دہائی شروع ہوتی ہے۔اِس دہائی میں پاکستان کی پنجابی فِلم اِنڈسڑی نے اپنی پچان بنالی تھی،اور بڑے بڑےکاروباری لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ،اس طرح فِلم سازی میں بہت سے نۓ لوگوں نے قدم دکھا،نۓ سٹوڈیو بنے اور اِنڈسٹریکے تقریباً ہر شعبے میں نۓ لوگ قسمت آزمانے آنے لگے جہاں راتوں رات شہرت اور دولت پانے کے اِمکانات کسی بھی دوسری جگہ سےزیادہ تھے۔اِس طلسماتی نگری میں جہاں راتوں رات اِنسان کی کایا پلیٹ جاتی ہے بہت سے نئے شاعر آنکھوں میں سہانےسپنے سجاۓاور دل میں اُمیدوں کے چراغ جلاۓ داخل ہوۓ ، جن کا تعارف بہت ضروری ہے۔میں یہاں صرف اُن کے ناموں پر اکتفاکرؤں گی اگر اُنکے گانوں کےمکھڑےلکھنے بیٹھ گئی تو یہ مضمون کبھی ختم نہیں ہوگا۔
حمیداحمد ایم اے ، سیف چغتائی ، معضوم لدھیانوی ، مایا دیوی ، شمس جالندھری ، سلیم کاشر ، اے ایچ عامر ، حافظ اَمری،
اطہرنظامی ، بشیر کھوکھر ، ایم صادق ، خواجہ پرویز ، ماسٹرعبداللہ ، صوفی تبسم ، موہن سنگھ ماہر، طالب جالندھری، مصطفی بٹ، ناظم پانی پتی ، سلم اویسی ، نذر حسین بھٹی ،
فرزند وار ث، اے آر گلزار ، ساحل فارانی، ایم اقبال ملک، عبدالحمید امر، جہانگیر چوہدری، خادم مادھو پوری ، ذوالفقار اے سید، نذیراحمد ناجی، منُیرنیازی، داؤد خان شیمہ، سلطُان محمود آشفتہ، افتخار شاہد ، منطو اِعجاز، ابر کاشمیر، انور سمرام، تنویرکاظمی،معراج لاہوری ، صحرائی گورداپسوری ، اقبال چوہدری ، زاہدمرزا ، منظور عامر ، شریف ، مسرورجالندھری ، جیب جالب ، سلمٰہ محتاز، عابد شجاع ، اسلم شاہد ، سعید جعفری ، سلامت صدیقی ، ریاض الرحمن ، ساغر ، آصف جاہ ، ظہیرکاشمیری،
یہ تھے وہ نئے قلم کار جو ساٹھ سے ستر کے عشرے میں اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے اور قلم کے جو ہر آزمانے کے لۓاِس شہرنگاراں میں داخل ہوۓ ، اب کامیابی اور کامرانی کا ھُما کِس کے سر پر سایہ فگن ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتاۓ گا؟؟؟؟؟؟؟؟۔
تحریر :
عاصمہ قادری
To be continue
From
Asma Qadri
Serial No: 17
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
باباعالم سیاہ پوش ، تنویرنقوی ، حزیں قادری ، وارث لدُھیانوی، اور احمد راہی ، نے اِس دہائی میں بھی اپنی اپنی کامیابیوں کا سفرجاری دکھا پنجابی اَدب کی فلمی برانچ کی خدمت کرتے رہے۔
1960۔ اس سال ٹوٹل چار پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں تین فلموںکے مضف نغمہ نگار حزیں قادری صاحب تھے۔ مگر اِس سال کا میلہ وارث لدھیانوی نے یہ گیت لکھ کر لوٹ لیا۔
“دلاں دیاں میلیاں نین چن جہیاں موڑتاں”
1961۔ اِس سال پانچ پنجابی فلمیں سنیماؤں کی زینت بنیں جن میں اِن شاعروں نے نغمات لکھے ۔ فضی، سکے دار ، طفیل شیار پوری،حمید احمد، اے ہینوچغتائی،وارث لدھیانوی ، معصوم لدھیانوی، اسمائیل متوالا، اور حزیں قادری، مگر یہ سال کسی بہت بڑی پیشکشکے بغیر ہی گذر گیا ۔
1962 میں بھی چار پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں،جن میں دو کی کہانی، نغمات،اور مکالمے، حزیں قادری صاحب نےلکھے تھے۔ اِن کے گانے کہانی کی ضرورت کے مطابق اچھے لیکن رہڈیو پر فرمائشی پروگراموں میں کوئی کامیابی نہ سمیٹ سکے۔
تحریر:
عاصمہ قادری
To be continue
From
Asma Qadri
Serial No: 18
9 April 1926 date of birth۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
1963 ۔اس سال کے اِخیتام تک چھ پنجابی فلمیں ریلیز ہوئی، خریں قادری کی دو فلموں نے زبردست بزنس کیا اور باکس آفسپرچھاگئیں، ان کے گانوں کو بھی مقبولیت ملی ۔ جن میں
پہلا۔ جھتے وگدے نیں راوی تے چناں بیلیا۔
دُوسرا۔ اکھ شرابی رنگ گلابی پتا کھاداپان۔
لیکن 1963 کا فرمائشی پروگرام بابا عالم سیاہ پوش کے ہاتھ رہا اُن کا یہ گیت ملکی سطح پر بہت کامیاب ہوا۔ “ میری جھا نجر چھنچھن جھنکے،چھنکارا جاوے گلی گلی”۔
1964، پاکستان بننے کے بعد یہ پہلا سال تھا جب پنجابی فلموں کی تعداد پچھلے سالوں سے دگُنی تگی ہوگئ۔ اِس سال چودہ فلمیںریلیز ہوئیں۔ اِن چودہ میں سے پانچ فلموں کے مصنف و نغمہ نگار حزیں قادری تھے۔ اِن کے ایک گانے ملک گیر شہرت حاصل کی، “ ٹانگے والا خیر منگدا ٹانگہ لاہو ردا ہووۓ بھاویں جھنگ دا”
دُوسرے شعرا جن سے ایک مقابلے کی فضا قائم ہیوئی اُن میں، تنویرنقوی، اطہیرنظامی، مسلم ادسیی، حافظ مرتسی، احمد راہی،باباعالم سیاہ پوش، بشیرکھوکھر تھے۔
تحریر:
عاصمہ قادری
To be continue
From
Asma Qadri
Serial No: 19.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
حزیں قادری صاحب کے ہم عصر
1965۔کو پاکستان بھارت کی جنگ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے،لیکن اِس سال بھی سنیما کی زنیت بننے والی پنجابی فلموں کیتعداد پچھلے سال جتنی رہی۔ اِس بھی حزیں قادری کی پانچ فلمیں لگیں یوں ترقی کے سفر پر گامزن فلمی صغت میں جو نۓ شاعرشامل ہوۓ اِن میں ظہیر کاشمری، ماسٹر عبداللہ اور ایم صادق تھے۔ اِس سال منظور جھلاصاحب کے ایک گانے کو بہت سراہا گیا۔
ہنجونذراے تیرے اکھیاں نیں میریاں۔
لیکن یہ سال حزیں قادری کے نام رہا۔
ماہی وے سانوں بُھل نہ جاویں ، اور جیو ڈھولا۔ کے ساتھ۔
تحریر :
عاصمہ قادری
To be continue
From Asma
Serial No: 20
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) : Topic
1966۔ آتے آتے پاکستان کی پنجابی فِلم اِنڈسڑی، خود رو پودے سے پھل دار درخت کی صورت اِختیار کر چکی تھی،میں بار بار اسےخود رو پودے اِس لۓ کہ رہی ہوں کہ پہلے دن سے آخری دن تک حکومتی ایوانوں سے اِسےاِنڈسڑی کا درجہ ہی نہ مل سکا،حالانکہحکومت نے کروڑوں اربوں روپے ٹیکس اور ایکسائیز کی مد میں اس بے آسراِنڈسڑی سے حاصل کئے ۔خیر ہم اپنے موضوع کی طرفآتے ہیں۔یہ سال اِکیس پنجابی فلموں کی ریلیز کے ساتھ ایک یادگار سال بن گیا،اور اِس صنعت کی گہما گہمیاں مزید بڑھ گئں۔اِسسال حزیں قادری صاحب کی سات فلمیں سنیما کی زینت بنیں، اِن اِکیس فلموں میں تقریباً سولہ شاعروں نے اپنے نغمات پیشکیۓ،لیکن سب سے زیادہ پدیرائی صوفی تبسم صاحب کے ان نغمات کو ملی۔
“میرا ماہی چھیل چھبیلا ہاۓ نی
کرنیل جرنیل نے “
اور ہومیریاڈھول سپاھیا تینوں ربّ دیاں رکّھاں”
حزیں قادری صاحب کا گانا۔
“سنجاں نیں بوہےاگےچک تاں لئ “ بھی بہت مشہور ہوا۔
تحریر عاصمہ
Serial No: 21
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) : Topic
1967۔ پاکستان کی پنجابی زبان پر مشتمل فلمیں ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرنے لگیں ۔ اِس سال اُینسفلمیں عوام کو دیکھنے کو ملیں، اور یہ وہ دوَر ہے جب سنیما کے گیٹ کیپرسےلے کرسٹوڈیو اونرتک خوشحالہوگۓ اِس صنف کےمُردو، ہر شعبے کے معاونین ، EXTRAS گویا اِس سے وابستہ ہر شخص مطمئن اور فکرفرداسے بے نیاز ہوگیا،اِن دنوں کھاتے پیتے لوگ اِس بات پر فخر کیا کرتے تھے۔کہ فلاں سنیما میں اُن کا واقف لگا ہواہے۔ مطلب ٹکٹ حاصل کرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوگی ۔آج فلم انڈسڑی کی حالت دیکھ کر ایسی باتیں عجیبسی لگتی ہیں۔سادا دن ریڈیو فلموں کے گانے سنایا کرتا ،ٹی وی نشریات کا آغاز ہوچکا تھا لیکن فلم کا جادوسَرچڑھ کر بول دہا تھا۔میں نے اِس مضمون کے لئے ریڈیو ہی کا سہارا ڈھونڈ اور اِسکے فرمائشی پروگرام کوپیمانہ بنایا ہے، دراصل ریڈیو نے ہی فلمی گانوں کی شاعری میں ایک مشبت اور صحت مند مقابلےکےرُحجان کوتقویت بخشی ، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج بھی کچھ اسیے لوگوں تک ہماری رسائی ہے جو اُس Golden Age کی کہانیاں سنانے کے لئے مُیسّرہیں، میں نے پیمانے کا ذکر کیا ہے مطلب ہم اِن گولڈن لوگوں سے یہ ہیپوچھاکہ فلاں سال ریڈیو پر کون سا گانا کتنی بار سُنایا گیا۔؟؟ جِس کے جواب کی روشنی میں مضمون لکھرہی ہوں،
بات شروع ہوئی تھی سن ستاٹھ سے، اِس سال حزیں قادری صاحب کی پانچ فلمیں Release ہوئیں ۔ اِنکے جنگانوں کو مقبولیت ملی اُن کے بول پیش کرتی ہوں۔
“ حزیں قادری “
۱۔”سوچ کے یار بناویں بندیا سوچ کے یاربناویں۔”
۲۔”نی دفعہ جابھیڑ وسائی،نی پسیہ منگن آئی۔”
۳۔ “کلّا بندہ ہو وے بھاویں کلّا رُکھ نی دو نواں کَلّیاں۔”
۴۔” تینوں سامنے بٹھا کے شر ماں تے اینحو
میرا دل کردا۔”
۵۔” چٹی بدلی چڑھی آسمانی کالا تیتر بولیا۔”
۶۔” دل دا جانی، سہیونی میرے دلدا جانی۔”
احمد راہی صاحب نے صرف ایک فلم کے گان۔
لکھے جو بہت زیادہ مشہور ہوۓ۔
۱– “حال میرے توں ڈرنانی اڑیوپیارنہ کر نانی۔”
۲۔ “ سنجےدل والے بوہے اُجےمیں نہیوں ڈھوۓ۔”
۳۔ “ نہ عشق نو لیکاں لائیں ہاڑ اوے ڈھولن نہ جائیں۔”
باباعالم سیاہ پوش کےدوگیتوں کو بڑی شہرت ملی۔
۱۔ “ میں چھج پتاسے وَنڈاں اَج قیدی کر لیا ماہی نوں۔”
۲– “ جیّد ادل ٹٹ جاۓ جیّد گل مکُ جاۓ۔”
تنویرنقوی صاحب کے اِس گانے بڑی دھوم مچائی۔
۱– “ سنجاں نہ جا، اَجے لھّا نہیّئوں چاہ میرے پیار دا۔”
منظور جھلاصاحب کےدونغموں نے بھی سنے والوں کے دل میں جگہ بنائی۔
۱– “ دلامیریاکسے دے نال پیار نہ کریں۔”
۲– “ یاراں نال بہاراں سنجاں یاراں نال بہاراں۔”
ایم اقبال ملک صاحب، بھی ایک گانے کے ساتھ سارا سال ریڈیو سامعین پر چھاۓ رہے۔
۱– “ آجاوے میرے ڈھولن ماہی۔”
تحریر
عاصمہ قادری
To continue
Serial No:22.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) : Topic
1968۔کی جنوری کا پہلا دن ہی جمعے کا تھا، جو فلم کی ریلیز کادن بھی ہوتا ہے سال کی ابتدا ہی ہوئی، تو یہ نیک شگون ثابت ہوا اور اِس سال چھتیس پنجابی فلمیںپیش گئیں۔ جو ریکارڈ تھا۔ اِس سال حزیں قادری صاحب اپنی اکیس فلموں کے ساتھ انڈسڑی کے مصروفترین مصنف و نغمہ نِگار بن گئے، وہ اگر فِلم ساز کو دو سال بعد کا ٹائم دیتے تو فِلم بنانے والے اِس پر بھیآمین کہتے۔ یہ سال میوزک کے حوالے سے بہت ہی دلچسپ رہا۔ اِس لۓ جن نغمہ نگاروں کے کلام کو عواممیں پذیرائی مِلی میں اُن کے نمبر ون، نمبر ٹو، نمبر تھری ہونے کا معاملہ یہ مضمون پڑھنے والوں پرچھوڑتی ہوں۔میں صرف اِتنا کروں گی کہ شاعروں کے نام اور گیت کے بول لکھ دوں، اِس سال فلموں کیتعداد کے حوالے سے دوسرے دو شاعر وارث لدھیانوی اور خواجہ پرویز تھے۔ دو تین سال سے جو مقابلےکی ہنڈیا تیار ہورہی تھی، اب وہ پک چکی تھی، اور غیر محسوس طرلقیے سے پنجابی فلمی شاعری میںایک زیر دست ادبی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ ملاحظہ کیجئے ۔( خواجہ پرویز صاحب ) :
( ویریا وے کیڑی گّلے نظراں نی پھیریاں )
( چلے پُرے دی ہوا اتوں پوہ دا مہینہ )
( دکُھ لباں تے نہ آوے بھاویں چندمکُ جاوے )
( بابا عالم سیاہ پوش صاحب ) :
( جہیڑے توڑ دے نیں دل برباد ہون گے)
( چٹی گھوڑی تے کاٹھی تلے دارنی سّیو)
( میرے سجتے پھلاں دے گجرے )
( وارث لدھیانوی صاحب ) :
( دِھّیاں دِنسیاں تے کیوں نہ دِیا مال مالکا )
( سونیو عید مبارک، ہیر پو عید مبارک )
( وِچھوڑا مکے سجناں دے،ربّاایدے نالوں موت )
( احمد راہی صاحب ) :
( جدوں تیری دُینا تو پیار ٹر جاۓ گا،دس فیر دنیا چ )
( اسَاں جھوک پنُن دی جاناں )
( ڈھول بلوچاموڑ مہاراں )
( تنویرنقوی صاحب ) :
( کاہنوں کیتا پیار تیرے نال وے )
( حزیں قادری صاحب ) :
( سُن تے جا وے جگُ جگُ جیویں )
( چن میرے مکھناں تے ہس کے اِک پل )
( ماہیاوےبنگلہ پوا دے ایھتے تے اُتے )
( دل نہ توڑیں پردیسن دا )
( پیار نالوں پیار سجناں )
( کہندے نیں نیناں تیرے کول رہناں )
( سجن پیار ملے کوئی دُکھ پھولئے )
حزیں قادری صاحب کی اکیس فلمیں سنمامیں لگیں ، اِس لئے اُن کے سات گانے لکھنے کی جسارت کی ہے۔
23: Serial No
9 April 1926 date of birth
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) : Topic
1969۔ہر نیا سال فلموں کی تعداد میں اضافہ لےکے آریا تھا۔ چھوٹےشہروں اور قصبوں میں سنیماؤں کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سنیما اور فلم بزنس میںInvestment ایک شاندار کاروبار سجھاجانے لگا۔سنیما پڑھے تو فلموں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ڈائیریکڑ، رائیڑ، cameramen گویا کہ ہر Technician نیک نیت کے ساتھ اچھے سے اچھا کرنے کی کوششمیں لگ گیا۔جِس کا Result یہ نیکلا کہ پنجابی سنیما قومی زیان کے مد مقابل آگیا۔ Folk Theatre، لوکتماشہ، جسے عرف عام میں ٹھیڑ کے نام سے پکارا جاتا تھا، سنیما کے مقابلے میں اپنی کشش کھو بیٹھا،یہ Theatre میلوں ٹھیلوں میں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے جسے آہستہ آہستہ چلتے پھرتےسنیما کچی ٹاکی نے Replace کیا، کچی ٹاکی وہ سنیما تھے جو Tent تان کر اِن میں مصنوعی اندھیرا بناکر لوگوں کو فلمیں دکھایا کرتے تھے۔Projector
چلانے کے لۓ اِن کے پاس Generator ہوتا۔ اِس طرح اُن لوگوں تک بھی فلموں کی رسائی ممکن ہوگئ جواپنے گاؤں سے کبھی باہر ہی نہیں گۓ تھے۔ یہ فلموں کا سفر اپنے اِنہتائی عروج کی طرف بڑھ رہا تھا۔تھپڑوں کے SuperStars نے بھی اسی دور میں فلم نگری کا رُخ کر لیا، اور بعد ازاں ملکی سطح پر اپنیپہچان بنائی،
بات ہم کر رہے تھےسن 1969 کی تو اِس سال اُنتالیس فلمیں لگیں،اب Competition کی فضا جو چندسالوں سے شروع ہوئی تھی وہ عروج کے مراحل میں داخل ہوگئ۔اِس سال شاعروں کے قافلے میں جن نئےلوگوں نے قدم رکھا
اُن میں سلیم کاشر، سلطان محمودآشفتہ، عبدالحمیداَمر، اِفتحار شاہد، اور سعید جعفر تھے۔
( عبدالحمید اُمر )
( ٹر گیا ماہی تے رونا پلے پا گیا۔)
( اِفتحارشاہد )
(سوہنا مکُھڑاتے اَکھ مستانی وے پل پل)
( سعید جعفر )
( تیرے ہتھ کیہ بے درد لے آیا وے پھلاں)
( سلیم کاشر )
( اوپیا جانداو یکھو یاریاں داڈنگیا )
( تنویرنقوی )
( وگدے نیں اَکھیّاں چوں راوی تے چناں )
( وارث لُدھیانوی )
(وے میں دل تیرے قدماں چ رکھیا)
(ڈاھَیڈ بھیڑ عشقے داروگ )
( چھپ جاؤ تاریو پادیو ہنیروے )
( احمد راہی )
( آندا تیرے لئ ریشمی رومال اُتے تیرا )
( اِک روویں توں بدلا دوجے روندے نین )
( ہاۓ وے میرے ڈھول بے دَردے )
( خواجہ پرویز )
( بُھل جان ایہہ سب غم دُنیا )
( پُھٹے سیدھے بودے واء ےکے شہر بابو)
( اپنا بنا کے دل لاء کے نس جائیں ناں)
( حزیں قادری )
( تنوں تکدی نہ رَجّاں ہووّن دو لکھ نیناں
( اللہ دی سوینہ تُوں نہیں دسدا )
( مان لے مان موجاں ایخو دن چار نیں )
( وگدی ندّی دا پانی، اِنج جا کے مڑنیں
( جادل دے چھڈیا تنوں وے دلدارجان کے)
( جندآکھاں کے جان آؤ سجناں )
یہ سال بھی حزیں قادری صاحب کے لۓ مصروف ترین سال رہا،اِن چودہ فلموں نے پردہ سکرین پر راج کیا۔دوسری طرف ریڈیو کے فرمائشی پروگرام پر جوشاعر سارا سال چھاۓ رہےاُن میں سِرفہرست خواجہپرویز،احمد راہی اور حزیں قادری صاحب تھے۔ اب آگے پیش خدمت ستر سے اَستی کی دہائی کا حال۔۔۔۔۔
تحریر
عاصمہ قادری
To continue
تحریر
عاصمہ قادری
To continue
Serial No:24
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) : Topic
سّتراسّی کی دہائی میں پاکستان فلِم اِنڈسڑی اپنے زبردست عروج کے دور میں داخل ہوئی، ان دس سالوں میں ہماری فلِمی صنعت نےساتویں آسمان کو چھُولیا،اور میرے خیال میں اِس سے پہلے اِس کے بعد ایسا زمانہ فِلم کی مناسبت سے ہمیں دیکھنے کو نہیں مِلا۔ اِسدہائی میں سنیما کی جو تعداد تھی وہ اگلی دہائیوں میں نہ رہی بلکہ اُن میں کمی واقع ہونے لگی۔ ہمارے مضمون کا موضوع کے حزیںقادری صاحب اور اُن کے ہم عصر ہے اِس لۓ فِلم اِنڈسڑی کے عروج و زوال کے اسباب پر روشنی پھر کبھی ڈالیں گے فی الحال ہم اپنیبات اِس ضعت سے والبتہ شاعروں تک محدود رکھتے ہیں۔ساٹھ سے سّتر کے عشرے میں فِلم اِنڈسڑی نے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کواپنی طرف متوجہ کرلیا تھا جِسکی وجہ سے فلمیں بننےکی تعداد میں یلکدم تیزی آگئی،ہر ڈپارٹمنٹ میں نۓ لوگ آنے لگے،ستر سےاَسّی کی دہائی میں شاعری اور کہانی کے شُعبے میں جو تازہ واردِ چمن ہوۓ اُن کے نام پیشں خدمت ہیں ۔ اور آج تک کِسی بھی دہائیمیں آنے والے شاعروں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔فیاض شیخ ، حیکم علی محدراز ، خادم عباس ، رشید اختر، اظہر جاوید الیاسگجراتی ،
نواز دانش، شبیّر حسین ، سرفراز قریشی، اَشرف شگفتہ، مشتاق شفائی، طالب چشتی، ریاض لودھی، اُسیر سو ہلوی، مقبول کاوش،ظفر علی ظفر، مظہر امام ، تنویر جیلانی، خواجہ اظہر حسن ، ڈاکڑ رشید انور ، نیّر سوچ، مُحسن حجالی، امین ایاز، ارشد مرزا ، منیراے اُنجم ، فضل الطاف، مسُعودمنّور ، گلزار خلیل ، تاج اَمین ، مُحّمد علی دلاور ، امِداد صدیقی ، ساحر بُخاری ، منُشی لطیف گجراتی ،عاصی رضِوی مظہر کاظمی ، اصغر علی، کوثر وڑائچ، کمال احَمد، حِمیدڈار، جمیل احمد، اِعجاز بخاری، ڈاکٹر نسیم اعظم،شاہدحفیظ، مشتاق علوی، ایم اقبال ملک، ریحان، شریف شہری، ایچ ایم یوسف، حَسن نِثار، ازل شاہ، احمد ندیم قاسمی، لیڈی ڈاکٹرتسم اعظم، عباد علی عباد، اَختر ہشیار پوری، شفیع عقیل، حفیظ سہیل، رفیق قادری، اُمجد تنویر، نذیر شمسی، رؤف شیخ، اِشفاقسیاہ پوش، حمداَشرف شہاب پوری، دو اُردو کے بہترین فلمی شاعر فیاض ہاشمی اور مُسرور انور نے بھی مُنہ کے زاۂقے کی تبدیلیکے لۓ کچھ پنجابی گیت لکھے۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No:25.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :Topic
1970 میں جن گانوں کو ریڈیو پہ مقبولیت حاصل ہوئی، اُن کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے، لیکن اِس سے پہلے ایک فلم کے گانوں نےساری ترتیبیں ہی الٹ پلٹ کر دیں۔ اور یہ سال سیدھا سیدھا احمد راہی صاحب کا سال بن گیا۔
دو گانے۔۔۔۔ ( احمد راہی صاحب کے )
۱–اد ونجھلی والٹریا تون تاں موہ لئی اومنٹیار
۲۔سُن وَنجھلی دی مِھٹڑی تان وے میں تاں۔
۳۔تیری خیر ہووے ڈولی چڑھ جان والیئے۔
۴۔کوئی نواں لارا لاء کے مینوں رول جا۔
۵۔ماہی وے مینوں لال چڑھا دۓ چوڑا۔
۶۔اکِ تارا جیاء چن ولّے تکدا اے۔
اِس سال بھی فلموں کی تعداد کے حوالےسے حزیں قادری سِر فہرست تھے۔ اُن کی گیارہ فلموں کو سنیماؤں میں پذیرائی مِلی۔
یہ گانے مقبول ہوۓ۔
۱۔میرا سوہنا دیس کساناں دا شہزوراں دا۔
۲۔اُساں تیرے دُکھ نوں وی جھولی پا لیا۔
۳۔سجناں دوُر دیا تیرے دکُھ توسکُھ وٹا کے۔
۴۔کیہ وساکھی آئی نی ماں کِیہ وساکھی آئی نی ماں
۵۔اَکھیاں دے موتیاں دی ٹٹ گئی اے مالا۔
۶۔میں ڈگ مگ ڈولدی جھُوٹ نہیں بولدی۔
۷۔دُنیا مطلب دی او یار مطلب ہووّے تے۔
سُلطان محمُودآشفتہ کے بھی دو گانے رہڈیو پر بہت مقبول ہوۓ۔
۱۔ماہی ہسیا بہاراں کھڑپیاں نچ نچ کے۔
۲۔دم عشق دا بھرنا پئےگانی۔
خواجہ پرویز صاحب کا یہ گیت بہت مشہور ہوا
۱–سُن وے بلوری اکھ والیا۔
منُظورجھلا صاحب نے اِس سال اِس گانے کے ساتھ حصّہ ڈالا۔
۱– وے لگیاں دی لج رکھ لیں کہتےبھل نہ جاویں۔
سلیم کاشر صاحب نے بھی ہر دلِعریز ہونے کا کھاتہ اِس گانے کے ساتھ کھولا۔
۱– تیرے پیار دا میں کیتا اقرار وے۔
رہڈیو پر ایک گانا بڑے شوق سے بار بار سُنا گیا جِسے مسُرور جالندھری نے لکھا تھا۔
۱۔ سّجن رُس بہندے نیں خورے کی کہندے۔
اِس سال ماضی میں بڑے اَچھے comic رول کرنے آصف جاہ صاحب بھی فلموں میں گیت لکھنے لگے۔اُن کے ایک گانے کو ملک گیرشہرت ملی۔
۱۔ تیرے خواب تے خیال ریندے میرے نال نال۔
اِسی سال خریں قادری صاحب کے سَب سے پیارے شاگرد عابد شجاع صاحب نے بھی نغمہ نگاری میں قدم رکھا۔مگر اُنھیں زیادہشہرت ہدایت کاری ملی۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No:26.
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :Topic
1971.اِس سال 37 سنیتیس فلمیں پردۂ سکرین پر جلوہ اَفروز ہوئیں ۔جن میں شاعری کے حوالے سے خواجہ پرویز 16 فلموں کےساتھ پہلی پوزیشن پر آۓ۔حزیں قادری کو 12 فِلموں کے ساتھ دُوسری پوزیشن مِلی۔ لیکن اِس سال کی دلچسپ بات یہ تھی کہتنویر نقوی صاحب اپنی پانچ فلموں کے گانوں کے ساتھ ہر دلغریز ہوۓ۔
وہ گانے یہ تھے۔ ( تنویر نقوی صاحب )
۱۔چل چلّئیے دُنیا دی اوس نُکرے جھّےبندہ نہ بندے دی زات ہیووّے۔
۲۔مکُ گۓ نیں ہنجو نہیئوّں مکُدی اُڈیک وے۔
۳۔میں کہیا گل سُن جا۔۔۔۔گل ایہہ وے کے۔
۴۔جان والیا تینوں میں سُنا نہ سکی دل والی گل وے۔
۵۔اپنی کہانی پارو کس نوُں سُنا واں ودھ مینوں۔
حزیں قادری صاحب کے جن گانوں کو اِس سال پذیرائی ملی وہ تھے۔
( حزیں قادری صاحب )
۱۔سُچّا سودا پیار جھُوٹ نہیں بولناں۔
۲۔موتی ڈھُل گۓ مجتاں والے اوۓ۔
۳۔اُجّی لمّی کوُنج جی مٹیار ملے کجی نہ منگاں۔
۴۔وعدہ کرکے مُکرے جہیڑا سجن نہیں آؤ ویری اے۔
۵۔اَیناں پھل کّلیا دی محفل وچ۔
۶۔سّیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آگیا۔
یہ آخری گانا آج تک زبان زدِ خاص وعام ہے۔اِس گانے نے مقبولیت کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڈ دئیے تھے۔
خواجہ پرویز صاحب کے جن گانوں کو بہت سراہا گیا وہ ہیں۔
( خواجہ پرویز صاحب )
۱۔کِیویں میں کجلّا پاواں وے اَکھیاں چ توُں۔
۲۔مُنڈا شہر لہور دا میرے دل تے تیر چلاوے۔
۳۔دلوں مُن لئ تیری بن گئ دل جانیاں۔
۴۔اَکھیاں لڑیاں دل تے وار ہویا۔
منظور جھلا نے اپنا حِصّہ ایک گانے کے ساتھ ڈالا۔
( منظور جھلا صاحب )۔
۱۔تک پتری والیا لیکھ میرے میرے دل وچ۔
فیاض شِخ صاحب جو کہ مشہور یدایت کار اور کہانی نویس ریاض شاہد کے بھائی تھے۔
اِن کا یہ گانا بہت مقبول و مہشور ہوا۔
(فیاض شِخ صاحب)
۱۔جدوں وی کوئی پیار کرن دی کسِے نوں حامی بھر دا۔
وارث لدھیانوی اپنے دو گانوں کے ساتھ محفل حصہ بینے۔
( وارث لدھیانوی )۔
۱۔پاگل نیں او جہیڑے سّچا پیار کِسے نال کردے نیں۔
۲۔شیشہ ٹٹُدا واچ آؤندی وے تُوں تے۔
خادم عباس کے اِس گانے کو بڑی شہرت ملی۔
۱۔ماہی کہدگیا ملاں گا میں فئر آکے۔
(خادم عباس)
حِکیم علی محدراز بھی اِس ایک گانے کے ساتھ سارا سال رہڈیو پر چھاۓ رہے۔
۱۔نی سیّوکونج وِ چھڑ گئ ڈاروں تے بھّدی سجناں
نُوں۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No.27
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :Topic
1972.کُچھ سالوں سے پنجابی فلموں نے کراچی میں بھی فلم بِینوں کے دل میں گھر بنا لیا تھا۔ جن تقسیم کار اداروں ( Distributes ) کا تعلق لاہو سے تھا وہ خود کو پنجاب سرحد (KPK) کے Distributer کہتے تھے، اور کراچی کے تقسیم کار خودکو سندھ بلوَچستان کا نمائندہ سمجھتے تھے۔اور یہ وہ دورہے جب مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش ) سے بھی بہت اچھی فلمیںبن کرآیا کرتی تھیں اور قومی زبان میں بنی ہوئی مغربی پاکستان کی فلموں کا اُچھا خاصا مقابلہ کرتی تھیں۔ 1972 میں بنگلہدیس کے و جود میں آنے کے بعد یہ سلسلہ بالکل مُنّفطع ہوگیا۔
اِنھیں سالوں میں پنجابی فلموں نے بھی سندھ بلوچستان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔ پنجابی فلم کے Produces کے لۓمنافع کا ایک اور دَرکھُلا تو اُنھوں نے بھی پنجابی فلم کے معیار کو بہتر سے بنانے کی کوشِش کی۔ BLACK AND WHITE کی جگہ COLOUR فلمیں بننے لگیں۔ اور قومی زبان میں بننے والی فلموں کا مقابلہ کرنے لگیں اور یہ ہی وہ کشش تھی جووحید مراد جیسے LEGEND کو بھی پنجابی فلموں میں پھنح لائی۔ 1972 ایک تاریخ ساز سال کی حیثیت سے یاد رہے گا،کیونکہ اِس سال پاکستان کی پنجابی فلم اِنڈسڑی نے پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ پچاس سے زیادہ فلمیں بنائیں اِس سالچون54 پنجابی فلمیں سنیما کی زینت بنیں۔ شاعری کے میدان میں خواجہ پرویز اپنی اُنّیس فلموں کے ساتھ Top پر رہے۔دوُسرےنمبر پر ستّرہ فلموں کے ساتھ حزیں قادری رہے۔ لوگوں کے زہنوں سے پچھلے سال کے میوزک کا HangOver اَبھی نہیں اُتراتھا، پچھلے سال کے بہترین گانوں نے سامعین کے دل میں جگہ بنائی تھی۔
( خواجہ پرویز )
۱۔دو دل اِک دوُجے کولوں دوُر ہوگۓ۔
۲۔سجناں ایہہ محفل اَساں تیرے لئ سجائی اے۔
۳۔تُوں ملیں کدی کدی سبسب کی اے۔
وارث لدھیانوی صاحب نے بھی اِس سال اِن گانوں کے ساتھ ہل چل مچائی۔
( وارث لدھیانوی )
۱۔پہلی واری اَج اوہناں اکھّیاں نیں تکیا۔
۲۔تیرے ملنے نوں کِنّی چاہ کرکے
آئینے نال جاٹھاہ کرکے۔
۳۔اَسیں کِیہ کِیہ بھیں وَٹاۓ یار تیرے ملہنے نوں۔
۴۔لوکو وے لوکو ایس مُنڈے نوُں دو کو۔
۵۔وے میں دل تیرے قدماں چ رکھیا تُوں پیر۔
۶۔ئٹ گۓ اَج میرے دل دے تار۔
نازش کاشمیری صاحب کے اِن گانوں مُلک گیر شہرت نصیب ہوئی۔
۱۔ہو ملےگا ظلم دابدلد۔
۲۔لیکھاں اُگےنہیئوں تیرا زور چلنا۔
تنویر نتوی صاحب کے اِس گانے نے بڑی دھوم مچائی۔
۱۔ٹُر گیا ایں کرکے تباہ ڈھولابے قدرا وے۔
اِقبال چودھری ایک گانے کے چھاۓ رہے۔
۱۔سجناں و چھوڑے تیرے مار سُٹیا۔
حزیں قادری کے ایک گانے سال کا پورا میلہ لوٹ لیا۔
۱۔دلدار صدقے لکھ وار صدقے تیرا کرام ہویا۔
۲۔دِھتیال دے دھُن پرایا وے بابلا۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No.28
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :Topic
1973یہ سال چھیالیس پنجابی فِلموں کے ساتھ جلوہ گر ہوا، سن تہتر آتے آتے کئ بُزرگ اور کُہندمشق نغمہ نگار جو کہ اباساتذہ کی گدّی پر براجمان تھے،اِس فانی دنیا کو خیرباد کہہ چکے تھے۔مقابلے کا وہ رُحجان جو پچاس اور ساٹھ کی دہائیمیں نظر آتا تھا اُسے کمرشل اِزم (Commercialism ) کا دیو کھانے لگا تھا۔ جو شاعر پاکستان بننے سے لے کر اب تک Field میں تھے وہ Seniority کے لحاظ سے اپنا ایک الگ مقام بنا چکے تھے۔ یہی وہ دور یے جب اِنڈسڑی کے لوگوں نے حزیں قادریصاحب کو باباۓ پنچابی فلم کا خطاب دیا اب لوگ اُنھیں نام کی بجاۓ “ بابا جی “ کہنے لگے یعنی کوئی اگر باباجی کہہ کر باتکرتا تو اِس کا مطلب “ حزیں قادری” ہوتا اِس سال بھی شاعری کے میدان میں اُنّیس فلموں کے ساتھ خواجہ پرویز Topپر رہےحزیں قادری ستّرہ فلموں کے ساتھ دوسرے اور وارث لدھیانوی دس فلموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آۓ ۔ گانوں کی مقبولیت کچھاس طرح رہی۔
یہ سال اِن گانوں کے ساتھ حزیں قادری کا سال رہا۔
۱۔تیرے نال نال وے میں رہناں۔
۲۔وے چھَڈ میری وینی نہ مروڑ۔
۳۔میرے من وچ ڈھول سما گیا۔
۴۔تک چن پیا جاندا اِی۔
۵۔اِک عرضی پائی اَکھیاں نیں۔
۶۔پیار جو ہویا نال تیرے تیرے وے ماہی۔
خواجہ پرویز کے یہ گانے بہت مقبول ہوۓ۔
۱۔اکّھ لڑی بدوبدی موقع ملے کدی کدی۔
۲۔نشیان نیں ساڑ ھیا حُلینہوگاڑیا،اپنی تباھی۔
۳۔وقت گذُر دا جاوے اہیہ جاکے مُڑ نہ آوے۔
وارث لدُھیانوی کے اِن گانوں کو بڑی شہرت ملی۔
۱۔نی چنبےدی بند کلیئے تینوں کیڑے ویلے ربّ۔
۲۔گھڑی پَل دی ہوؤے یا سو سال دی ۔
رؤف شیخ کے اِن دو گانوں کی بڑی دھوم رہی۔
۱۔سانوں نہر والے پُل تے بُلا کے خورے ماہی۔
۲۔ماپیاں دے گھر دھِیاں سدا نہئیوں رہندیاں۔
ارشد مرزا صاحب بعد میں جن کی وجہ شہرت ہدایت کاری بن گئی۔
۱۔یولو جی تنسی کیہ کیہ خرید آگے۔
مزاحمتی شاعر جیب جالب صاحب نے بھی دو تین فلموں کے گیت لِکھے۔
۱۔پیار دیاں ڈنگیا نوں ہور کِنّے ڈنگنا۔
۲۔کون میرے دُکھاں دی زبان ایھّے جاندا۔
۳۔دیندا نہیں سہارا کوئی کِسے اِنسان نوں۔
نازش کشمیری صاحب بھی کسِی سے پچھلے نہ رہے، ایک گانا سب پر بھاری رہا۔
۱۔سونیا وے مُکھ تیرا سّجری سویر اے۔
مُسرورانور صاحب نے بھی ایک پنجابی گیت لکھا۔
۱۔پیاسی جوانی منگدی،تیرے کُھوہ۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No.29
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :Topic
1974میں اگاون 51 پنجابی فلمیں پردۂ سکرین پر رونق اُفروز ہوئیں، شاعری کے حوالے سے تعداد خواجہ پرویز اکیس فلموں کےساتھ سِرفہرست رہے،15 فلموں کے ساتھ حزیں قادری نے دُوسری پوزیشن بر قرار رکھی، کچھ سالوں حزیں قادری کی شاعریمیں تصوّف نے جگہ بنانی شروع کردی
“ بابا جی “ اپنے اِس خطاب کے ساتھ پورُا اِنصاف کر رہے تھے۔اِنھیں سالوں میں کہند مشق پُرانے فلم ساز، ہدایت کار اور باقیTecnition جو قیام پاکستان سے لےکر اب تک اِس خُو درَو پودے کی آبیاری میں مصروف تھے، وہ آہستہ آہستہ گوشہ نشیں یاپھر Retired ہورہے تھے اور کچھ اپنی زندگی کا سفر تمام کرکے اِس عالم رنگ بُوسے کنارہ کش ہوچکے تھے۔مگر اس سےپاکستان کی فلم اِنڈسڑی کی ترقی کی رفتار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی تھی، چنانچہ فلمیں پہلے ہی کی طرح بن رہی تھیںپُرانے لوگوں کی خالی جگہ پُر کرنے کے لئے ہر Field میں نئے لوگ آرہے تھے، لیکن اِن نئے اور پُرانوں میں ایک فرق صاف نظرآرہا تھا، یہ بات میں چند نئے فلم سازوں کے بارے میں کہہ رہی ہوں جو بغیر کسی مقصد اور کاروباری نقطہ نظر کے فِلماِنڈسڑی میں ستّی شہرت، ہوس پرستی Black Money کو White کرنے کے لئے آئے تھے۔گواکشریت اب بھی سنجیدہ لوگوں ہیکی تھی۔ اس سال ایک ایسے ہی غیر سنجیدہ فِلم سازنے ایک فِلم بنائی جس نے پاکستان میں “Vulgar “ شاعری کو رواج دیا،اسیےگانے رہڈیو پر تو Ban رہے مگر اِن گانوں نے سنیماؤں اور نجی محفلوں میں بہت دھوم مچائی، فِلم اِنڈسڑی میں بھیڑ چالکا طریقہ مدتوں سے رائج تھا جس کی وجہ سے اگلے آنے والے دو تین سال فحش گانوں کا سیلاب ہی آگیا، آخرکار لوگوں نےاسیے گانے لکھنے سے یکسر اجتناب کیا۔ کہتے ہیں وقت ایک سانہیں رہتا، آخرکار لوگوں نے ایسے گانے سننے ہی چھوڑ دئےاور Vulgar شاعری کا خاتمہ ہوگیا۔ پھر دوبارہ ایسے گانے 1990 اسے ہماری فلموں کی زنیت بنے لگے۔ پاکستان کی پنجابیفلمی شاعری پر ایک ایسا دَور بھی آیا تھا اِس لئے اس کا تذکرہ ضروری سجھا۔ خیرآتے ہیں اپنے مضمون کی طرف تنویر نقویصاحب جو دُینا چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اِن کا یہ گانا بہت مقبول ہیوا۔
تنویر نقوی صاحب
۱۔ایہہ نگری داتا دی ایھتے آؤندا کُل زمانہ۔
بشیرمنذر صاحب کے اِس گانے نے بڑی دھُوم مچائی۔
بشیرمنذر صاحب
۱۔دلانیناں والے بوہے نبدکرلے ایھتے کسیے نہئتوں
آؤنا۔
پاکستان کے بہت بڑے شاعر سیف الدین سیف صاحب نے اپنا حصہ ڈالا ۔
سیف الدین سیف صاحب
۱۔اِک اِک شۓ چناں لبھ کے سجائی اے۔
۲۔مکُھ تیرا چناں کیڈا پیار لگدا اے۔
خواجہ پرویز صاحب اِن گانوں کے آۓ۔
۱۔چن سجناں وے نیڑے نیڑے ہو۔
۲۔دُنیا چ دل کولوں ودھ کیڑی شۓ وے۔
۳۔زندگی تماشہ بنی دُنیا دا ہاسا بنی۔
حزیں قادری کے یہ گانے مقبول ہوۓ۔
۱۔وے تُوں آؤ ناں سی وے تُوں نہیں آیا۔
۲۔ماہیا جے میں کبوتری ہو واں۔
۳۔تڑک تاڑی وجدی اے زراہتھ نال ہتھ۔
۴۔بڑا جی کرد اسی تُوں ملیں ملیں تے کراں گلاں۔
۵۔وے جا اَج تُوں میں تیری توُں میرا سجناوے۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No.30
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر )
1975۔ یہ سال چوالیس پنجابی فِلموں کی Release کے ساتھ ماضی کا حصہ بنا، اِس سال شاعری کی شاہ راہ پر سَب سےآگے پھر خواجہ پرویز صاحب نے اکیس21 فِلموں کے ساتھ اپنا سفر مکمل کیا دوسرے نمبر پر وارث لدھیانوی صاحب 16 فلموںکے ساتھ نظر آۓ، تیسرا نمبر حزیں قادری صاحب 12 فلموں کے ساتھ اپنی جگہ بناتے دکھائی دیۓ۔ پچھلے چند سالوں سےمصروف عمل رہنے والے نیّر سوچ نے بھی آٹھ فلموں کے گانے لکھ کر صف اوّل میں جگہ بنائی۔ایک نئے نئے صحافی نے بھی فلمنگری میں قدم رکھا اور ایک گانا لکھا وہ فِلم اِنڈسڑی میں تو کوئی خاطر خواہ اَنجام نہ دے سکے مگر صافت کے اُفق پر وہ آجکسی دَرخشاں ستارے کی طرح فروزاں ہیں۔ جناب حسُن نثار صاحب۔
یہ وہ دن ہیں جب آہستہ آہستہ فلم اِنڈسڑی کا منظرنامہ تیدیل ہورہا تھا، پُرانے Directors کی جگہ ایک بہت بڑی تعداد نئےڈائریکٹر کی آگئ تھی، اب Director کو پُرکھنے (Criterion ) اُس کی قابلیت نہیں بلکہ اِس بات پر تھی کہ وہ کہیں سے بہتاچھا Investor ڈھونڈ لاۓ اور اپنی فلم بنا لے، اِسی دَور میں کچھ آفس Boy بھی ہدایت کاری کے میدان میں آگۓ، وجہ صرفاِتنی تھی کہ اُنھیں پسیہ لگانے والے میسر آگے تھے۔ ایسےلوگوں کا مطمع نظر فِلم کی کامیابی تھی اور یہ کامیابی زیادہ Vulgarity دکھا کر حاصل کی جائے یار زیادہ Violence دکھا کر اُنھیں تو بس کامیاب فلم چاہیے تھی معاشرہ جائے بھاڑمیں، خیر ۔ قصوروار صرف ڈائریکٹر اور فلم ساز ہی نہیں فلم بین بھی تھے جو ایسی فلموں کو کامیابی کاسَر ٹیفکیٹ دیتے تھےیُوں Gradually اِن بےہودہ اور تشدد والی فلموں کی وجہ سے Families نے پنجابی فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی، بحثلمبی ہو جائے گی اِس لئے دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آئے ہیں۔
اس سال خواجہ پرویز کے اِن گانوں کو بڑی شہرت ملی۔
۱۔اَکھ لڑائی جا چُپ کر کے۔
۲۔رُس کے ٹُرپپئے او سرکار توڑ میرا سّجراپیار۔
۳۔شکاری میرے نین تُوں میرا نشانہ۔
۴۔ساہواں دی ہواڑ دا سواد جانا ایں۔
۵۔جد تک میرے ساہ وچ ساہ نیں پیار میرا ایمان ۔
حزیں قادری کے اِن گانوں کو مقبولیت نصیب ہوئی۔
۱۔چندرا گونڈ نہ ہو وے لائی لگ نہ ہووے گھر
والا۔
۲۔میں نہ جمدی ڈھولا میں نہ جمدی۔
۳۔رانجھن یار وے تیرے رنگ رنکی آں
۴۔اَج وی رؤ رؤ لیا دل نیں تے کجلا دھولیا نیناں۔
تحریر
عاصمہ قادر
Serial No.32
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :
1977۔ یہ سال پاکستان فِلم اِنڈسڑی کے بد ترین سالوں کی ابتدا کے طور پر یاد دکھا جاۓ گا۔” پانچ جولائی“1977” کو جزل ضیاالحق نے مارشل لا لگا دیا، جِس کے بعد پاکستان فِلم انڈسڑی کی ایسی درگُت بنی کہ خُداکی پناہ۔فنکاروں اور ٹیکنیشر نے پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک ایسا وقت نہیں دیکھا تھا۔ بہت جلد یہہوش رُباداستان بھی آب کے ساتھ Share کرؤں گی۔اِس سال کُل تینتیس پنجابی فلمیں Release ہوئیں، خواجہپرویز صاحب سترہ فلموں کے ساتھ سِر فہرست رہے،وارث لدھیانوی صاحب گیارہ فلموں کے ساتھ دوسرے اورحزیں قادری صاحب آٹھ فلموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر براجمان ہوۓ۔
خواجہ پرویز صاحب کے یہ گانے مقبول ہوۓ۔
۱۔اَکھ جدوں کردی اے وار سجناں۔
۲۔سونے یار دا نظارہ ہندا مَر مَر کے۔
وارث لدھیانوی صاحب نے اِن گانوں کے ساتھ مقُبولت کا کھاتا کھولا۔
۱۔پُھل پیار دے رین دے سجرے۔
۲۔ہاسے بُلیاں چوں اڈکے تیرے نی۔
حزیں قادری صاحب کے اِن گانوں کو پذیرائی ملی۔
۱۔کلیاں ناں جاناں ساڈے نال نال چلو جی۔
۲۔دَوروں بڑی دَورں تیرا خط آیا ڈھولناں۔
۳۔سنجاں آوی جا دیدار نواکھیا ترس گئیاں۔
نازش کشمیری صاحب اپنے اِس ایک گانے پر سارا سال نازاں رہے۔
۱۔دل کسے دا نہیں توڑی دا سنجاں مُکھ نہیں موڑی دا
یوسف موج صاحب کے اِس گانے نے رہڈیو کی بجاۓ super ریکارڈر پر سنُے جانے کے سارے اگلےپچلے ریکارڈ توڈدئیے ۔
۱۔گڈی وانگ مینوں آج سنجاں۔
تحریر
عاصمہ قادری
Serial No.33
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر )
1978۔مارشل لاء کے پہلے بِرس ہی فِلم انِڈسڑی پر نئ “CENSORSHIP “ لاگو ہوگئ اِس طرح
“Vulgar” فلمیں اور گانوں پر تقریباً پابندی لگ گئ اِس مرض نے دوبارہ نّوے کی دہائی میں جاکر سر اٹھایا۔
اِس سال تینتالیس پنجابی فلمیں پردہ سکرین کی زینت بنیں اور اِس سال بڑے دنوں بعد حزیں قادری صاحباٹھارہ فلموں کے ساتھ Top of the list رہے۔ حالانکہ اب عناصر میں اعتدال کم ہوتا جارہا تھا۔صحت بھی پہلےجِسی نہ رہی تھی،کثیرالعیال ہونے کی وجہ سے محتلف فِکروں اور اندیشوں میں گِھرے رہتے تھے،اپنے خاندانکے علاوہ برسوں سے وہ خیشوں اور دَردیشیوں کی خدمت کر رہے تھے۔ دینے والی تو خُدا کی ذات تھی مگرحزیں قادری صاحب بانٹ کر کھانے والوں میں سے تھے۔وہ اپنے
“ہم کار” دوستوں کا بھی دام درم سُنخے ساتھ دیتے تھے، اُن کی ایک نظم کا بند کچھ اِس طرح ہے۔
رَل بیئے تے وَنڈ کھایئے
جے وَنڈ کھایئے تے کھنڈ کھایئے
اَج جے سانوں رج کے ملیا اے
کلّا اِی بہہ کے کھا نہ یار
کون تیرا کوئی کِنّا یار
اپنے اندر جھاتی مار۔
باقی نغمہ نگاروں کی ترتییت کچھ اِس طرح تھی۔خواجہ پرویز سولہ فلموں کے ساتھ دوسرے نمبر پررہے،نازش کشمیری پانچ فلموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر، وارث لدھیانوی چار اور احمد راہی صاحب کے حصےمیں تین فلمیں آئیں۔
حزیں قادری صاحب کے یہ گانے بہت مقبول ہوۓ۔
۱۔کہنی آں سوہیناں کہنی آں میں ساری ساری
رات جاگدی رہنی آں۔
۲۔کن من لائی کالے بدلان بھج گئی میں آجا
سنجان۔
۳۔نِمّی نِمّی چٹّی چٹّی چاننی وے اُتوں پہلا پہلا
چاء تیرے پیار دا۔
۴۔او بندے نبی تے رکھ ایمان اہیہ دب دا فرمان
خواجہ پرویز کا یہ گانا بہت مقبول ہوا۔
۱۔ہور سُناؤ سجنوںکی حال چال اے۔
۲۔موڈھا مار کے ہلا گئی مینُوں۔
وارث لدھیانوی کے اِس گانے کو بہت شہرت ملی۔
۱۔موقع چنگاتُوں فیدہ اُٹھا لے منڈیا۔
نیّر سوچ ایک گانے کے ساتھ سارا سال رہڈیو پر چھاۓ رہے۔
۱۔گزُریاں گلّاں دل یاد کراؤ ندا اے۔
تحریر
عاصمہ
Serial No.34
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر ) :
1979۔ اِس سال انڈسڑی کی سب سے بڑی خبر فلم “مولا جٹ” کی ریلیز تھی،یہ فلم گیارہ فروری 1979 کوسنیماؤں کی زینت بنی، اِس فلم نے پاکستان کی پنجابی فِلم اِنڈسڑی کے مستقبل کی جو راہیں متعین کیں وہ آجتک قاۂم ہیں۔یہ فِلم ناصر ادیب صاحب کے قلم کا شاہکار تھی،وہ شاعر تو نہیں تھے لیکن اِس کے “Dialogues “ میں اُنہیوں نے جو شاعری کی وہ بڑے سے بڑے شاعر کی شاعری کی طرح لوگوں کے دلوں میں اُتر گۓ، اُن “Dialogues “ کی باز گشت آج چالیس سال گذرنے کے بعد پاکستان کی گلیوں میں سُنائی دیتی ہے ۔ میراموضوع شاعری ہے لیکن اگر نثر میں شاعری ہو تو اُسے نظرانداز نہیں کرسکتی۔ اِس لئے یہ چند سطریںناصرادیت صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے لکھ رہی ہوں۔
اب اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں اِس سال خواجہ پرویز دوبارہ اپنی پوزیشن پر بحال ہوۓ اور ستائیس فلموں کےساتھ Topپر نظر آۓ۔ حزیں قادری صاحب سترہ فلموں کے ساتھ دوُسری پوزیشن پر براجمان ہوۓ۔وارثلدُھیانوی گیارہ فلموں کے ساتھ تیسرے نمبر کے حقدار بنے۔ نازش کشمیری اور سعید گیلانی چار چار فلموں کےگانے لکھے۔مشہور گانوں کے بول کُچھ اِس طرح تھے۔
( خواجہ پرویز )
۱۔دُوروں دُوروں آ گھیاں مارے منڈا پٹواری دا۔
۲۔اَج مینُوں مِل گیا ویزا دوبئ دا۔
۳۔یار دی خاطر بھیسوٹایا میں گجُری بن گئی۔
(نازش کشمیری صاحب کے یہ گانے مقبول)
ہوۓ۔
۱۔سوہنا ماہی ویکھونی مجاج کنی رَکھدا۔
۲۔میں اکھڑ جٹی مٹیار پیار وچ کھڑ کن
دل دے تار۔
(حزیں قادری صاحب کے اِن گانوں کو ملک گیر شہرت نصیب ہوئی۔)
۱۔تیری پھانسی تُوں نہیں ڈرنا میں تے اللہ اِی اللہ کرنا۔
۲۔عاشق لوک تے رَملے کملے دنیا بڑی سیانی۔
۳۔لہورشہد تُوں جنج چڑھی اَکھ تے تار پشاؤروں کھڑکے۔
۳۔وے جگیا تیری اَکھ دا کٹک تیر وَ جیا نشانہ ہڑا۔
تحریر:
عاصمہ قادر
Serial No.35
9 April 1926 date of birth ۔
19مارچ 1991 کوسا دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میں عاصمہ قادری ابو جی کی زندگی کی کچھ باتیں share کر رہی ہوں۔ فلم نگری میں
(حزیں قادری صاحب کے ہم عصر) 1980 کا تذکرہ کرنے سے پہلے میں بتانا چاہتی ہوں کہ وہ منحوس سال ہے جو ہمارے خاندان پر آسمانی بجلی کی طرح گِرا اورسب کچھ ملیا میٹ کرکے گذُر گیا۔اِس سال دو دسمبر کو ابو جی پر فالج کا حملہ ہوا۔اور یہ نحوست زَدہ سال ابو جی کی فنیزندگی کے اختتام کا سال بھی بن گیا۔تین چار ماہ وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں میں رہنے کے بعد Survive کرگئے،اورباقی ماندہ زندگی Paralysis کے ساتھ گذاری۔وہ تمام عُمر ذہین و قلم کی مزدوری کرتے رہے تھے۔اِس بیماری نے اُنہیں کہانیبننے کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔اگر ایک راستہ بند ہوا تو اُنہیوں نے اپنے لئے دُوسرے راستے کا اِنتخاب کر لیا۔اور اپنیپوری توجہ گانے لکھنے پر مبزول کردی۔میں اس مضموں کے وسیلے سے اُن سب فلم سازوں ہدایت کاروں اور موسیقاروں کاشکریہ ادا کرتی ہوں جن کی محبت نے حزیں قادری کو موت سے پہلے مرنے نہیں دیا۔اُنہیں اُن کی وفات تک فِلم اِنڈسڑی سےکوئی شکایت نہیں تھی۔یہ وہی فلم اِنڈسڑی تھی جس کی بنیادوں میں حزیں قادری اور اُن جسۓ کی ہزاروں ٹییکنیشز کا خونپینہ شامل تھا۔
اِس سال چوبیس فلمیں سنیماؤں کی زنیت بنیں خواجہ پرویز بارہ فلموں کے ساتھ سِر فہرست رہے حزیں قادری چار فلموں کےساتھ دُوسرے اور وارث لدُھیانوی ، نازش کشمیری، تین تین فلموں کے ساتھ تیرے نمبر پر رہے۔
(حزیں قادری)
۱۔جا وے تینوں دل دتا دے دتا اللہ
1981 سے 19 مارچ 1991 تک
فالج جیسۓ موزی مرض میں مُبتلا ہونے کے بعد اِبتدائی تین چار ماہ بہت زیادہ آزمائش کے تھے۔ لیکن اللہ کےفضل کرم اور چاہنے والوں کی دُعاؤں نے اُنہیں واپس زندگی کی طرف لوٹنے پر مجبُور کردیا۔فالج نے اُن کی Left side پر حملہ کیا تھا۔جس کی وجہ سے اُن کا بائیاں ہاتھ اور بائیں ٹانگ مفلوج ہوگئے ، یہ اُن کی قوت ارادہ اوراللہ کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نےآہستہ آہستہ چلنا پھرنا شروع کردیا مگر بازو پر اُن کے زہین کا مکمل کنڑولدو بارہ نہ ہوپایا۔
جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگۓ تو انہیں سٹوڈیوز کی یاد ستانے لگی وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رینےوالوں میں سے نہیں تھے۔
ڈاکڑوں نے اُنہیں زیادہ سے زیادہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔ گھر والے بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ اِس حالت میںسٹوڈیوز جائیں اس صورتحال سے پریشان ہو کر اُنہوں نے اعلان کردیا کہ میرا کام ہی میری زندگی ہے میں اسسے الگ ہوکر زندہ نہیں رہ سکتا، تقریباً چھ ماہ کی SICK LEAVE کے بعد اُنہوں نے سٹوڈیو جانا شروع کردیا۔جس کے بعد وہ اپنی زندگی کی آخری ساسوں تک اپنے کام سے جڑے رہے۔اُنہیں 1990 میں اپنی وفات سےچند ماہ پہلے نِگار LIFE TIME ACHIEVEMENT اِیوارڈ سے نواز گیا۔جس کے وہ حقدار تھے، اُنہیوں نےپاکستان فِلم اِنڈسڑی کے خودر و پودے کو خون جگر سے سوار تھا۔اور یہ اُس کا انعام تھا،اُنہیوں نے آخری دسسالوں میں بہت تھوڑا کام کیا وہ مستقبل معذوری کی حالت میں تھے،اِس بیماری میں وہ بڑا پر جیکٹ کرنے سےقاصر تھے وہ خود کہتے تھے، فِلم کی کہانی کا دارومدار (Link) مطلب کڑی سے کڑی ملانے پر ہوتا ہے۔ میں اکثرکہانی لکھتے ہوۓ Link بُھول جاتا ہوں اِس لۓ میں نے رضا کارانہ طور پر کہانی لکھنے سے دست بر داریاختیار کی، آخری دس سالوں میں ایسئ فلمیں جن پر مصنف کے طور اُن کا نام آیا وہ سب سکرپٹ اُن کی بیماریسے پہلے کے لکھے ہوۓ تھے۔جو تھوڑی بہت ردّو بدل کے ساتھ پردۂ سکریں کی زینت بنے۔
حزیں قادری صاحب پاکستان فِلم انڈسڑی کی دو دھاری تلوار تھے، وہ کہانی کار بھی تھے اور نغمہ نگار بھیاُن کے ہم عصر بڑے بڑے قدآور نغمہ نگار اور کہانی لکھنے والے تھے،لیکن قدرت نے اِن دو سلطنتوں کی بادشاہیحزیں قادری کے نام لکھ دی تھی اُن کے بہت سے ہم کار ساتھیوں نے کوشش بھی کی لیکن چند فِلموں کے بعد وہ اپنے اپنے Comfort Zone میں واپس چلے گۓ۔
کہانی سے کنارہ کشی بعد اُنہوں نے نغمہ نگاری پر توجہ دی اور سالوں میں تقریباً سترّ (70) فِلموں کے لۓ گانےلکِھے جن کی تعداد تقریباً دو سو کے قریب ہے۔فی الحال میرا یہ مضُمون اُن کی نغمہ نگاری والی صلاحیت پرمبنی ہے۔اِس کی تکمیل کے بعد انشااللہ میں اُن کہانی لکھنے کے فن پر الگ سے ایک مضمون لکھوں گی۔
1950 سے 1980 تک میں نے حزیں قادری صاحب کے ہم عصر نغمہ نگاروں کو موضوع سخن بنایا، اب میں اُن کےلفظوں کو گیتوں کی مالا میں پرونے والے موسیقاروں اور اُن فنکاروں کا ذکِر کرؤں گی جن کی آواز نے اُن کےحرفوں کو امَر دیا۔
حزیں قادری صاحب نے اپنی پیشہ وارنہ زندگی میں تقریباً 33 پینتیس موسیتاروں کے ساتھ کام کیا،یہ تعدادحتمی نہیں اِس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بہت سی فلمیں ایسی ہوتی ہیں جہنی سنیما سکرین نصیبہی نہیں ہوتی بےشمار وجوہات کی بنا پر ایسی فلمیں بن نہیں پاتیں اور ڈبوں میں بند پڑی رہ جاتی ہیں،اوراِن سے منسلک بہت سے فنکاروں کا جوہر بھی گمنام رہ جاتا ہے،یہاں میں اِس بات کا اعتراف ضروری سمجھیہوں کہ یہ سُنی سُنائی باتیں ہیں،اِس بات کی گواہی تو بڑے بزرگ ہی دے سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا بات حقیقتہے یا افسانہ۔
اب میں اُن گنُی لوگوں کے نام اور حزیں قادری صاحب کے ساتھ ہر کِسی کی فلِموں کی تعداد لکھ رہیہوں،کوشش کے باوجود ترتیب شاہد دُرست نہ لکھ سکوں اِس لۓ پیشگی مغذرت۔
1. (جی اے چشتصاحب۔)
حزیں قادری صاحب کا پہلا گانا جو فِلم کے پردے پر دکھایا اور سُنایا گیا اُس کی موسیقی جی اے چشتیصاحب نے تر تیب دی تھی، اُنہیں نغمہ نگاری سے بھی شغف تھا، لیکن موسیقی اُن کے دل کے زیادہ قریبتھی،شاۂد اِسی لۓ وہ شاعری کو وقت نہ دے سکے۔پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اُن کا نام سب سے زیادہ کامکرنے والوں کی فہرست میں Top پر لکھ ہوا مِلے گا۔اُسی دور میں حزیں قادری اور جی اے چشتی کی جوڑیپنجابی فلموں میں کامیاب میوزک کی ضمانت سجھی جاتی تھی۔یہ اسیے ہی تھاجسۓ سکرین پر اکمل مظہرشاہ۔منور ظریف رنگیلا سطان راہی مطفےقرشی اور علی اعجاز ننھا کی جوڑیوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑےتھے۔ حزیں قادری صاحب چشتی صاحب کی اِس شراکت داری میں تقریباً چھپین (56) فلمیں بنی میں اِسےکوئی بہت بڑا Record نہ کہوں تو پھر بھی یہ کسی بہت بڑے Record سے کم تو نہیں ؟
2.( اختر حسین( اَکھیاں )
پاٹے خاں حزیں قادری صاحب کی پہلی کامیاب فِلم تھی جس کے بعد اُنہیوں نے مڑ کے نہیں دیکھا، یہ فلم سنپچپن میں رہلیز ہوئی اِس کے موسیقار اختر حسین تھے، جو بعد میں اختر حسیں اَکھیاں کے نام سے مہشورہوۓ یہ Musical Based Picture تھی۔اِس کے گانوں کےنۓپن نے گانا سنُنے والی دُنیا کو چونکا دیا۔زبیدہ خانماور میڈم نُورجہاں نے اختر حسین کی موسیقی اور حزیں قادری کے بولوں کو امَرکر دیا،اِس فلم کے کچھ گانوںکو اسیی شہرت ملی کہ آج تک لوگ سُنتے ہیں اور سَردرھنتے ہیں۔پاٹے خان کی کامیابی حزیں قادری اوراخترحیسن کی کامیابی تھی۔ دونوں کیStruggle کے دن تمام ہوۓ حزیں قادری صاحب اور اخترحیسن نے فلمسازوں کی توجہ حاصل کرلی۔نۓ نۓ Project ملنے لگےکہ اچانک اخترحیسن اَکھیاں Bombay چلے گۓ اور وہاںجاکر نوشاد صاحب کو Assist کرنے لگے۔اور ایک ایسی کامیابی جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے اُسسے خاطرخواہ فوائد حاصل نہ کر سکے۔انہوں نےحزیں قادری صاحب کی شراکت میں تقریباً نو(9) فلمیںبنائیں۔لیکن پاٹے خاں جیسی کامیابی دوبارہ نصیب نہ
3. ( خورشداختر )
حزیں قادری صاحب کی پہلی مصنت کی حیثیت سے بنی فِلم جس کے وہ نغمہ نگار۔ کہانی نویس۔مکالمہ نگارScreen Play رائٹر تھے۔ اِس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی،اگر کسی صاحب کے پاس خورشید اختر کی زندگیکےبارے معلومات ہوں تو وہ ضرور Share کریں۔
4.( رشید عطرے)
بہت بڑے فنکار پنجابی اور قومی زبان میں بننے والی فلموں میں یکساں مقبول، مشکل اور سب سے الگ کام کرنے والے، جن کا سُن کربڑے بڑے خان صاحب بھی ادب میں سر جھکاتے اِن کا ایک واقعہ ابو جی سے انعام بھائی نے سُناتھا وہ میں لکھ رہی ہوں،ایک فلمتھی۔باؤجی یہ وہ باؤجی ہے جس میں اِعجاز صاحب اور فردوس بیگم نے کام کیا تھا۔اِس فلم کے موسیقار رشید عطرے صاحب تھےحزیں قادری صاحب اِس فلم کے رائٹر تھے اور گانے لکھنے کا شعبہ بھی اُنہیں کے پاس تھا، یہ ہفتے کی رات کا ذکر ہے اگلے دنچھٹی تھی حزیں قادری صاحب چاہتے تھے کہ جو گانا ہم بنا رہے ہیں اُسے آج مکمل کرکے ہی گھر جائیں ، لیکن عطرے صاحب کاخیال تھا کہ گانا آج نہ بھی COMPLETE ہوا تو پیر کے دن COMPLETE ہوجاۓ گا۔فکر کِس بات کی ہے حزیں قادری صاحب نےایک آخری کوشش کرتے ہوۓ عطرے صاحب سے کہا اگر تھوڑی دیر اور بیٹھ جائیں تو گانا یقینً خم ہوجاۓ گا، اس پر عطرے صاحب نےجواب دیا یار حزیں! کل ہم میں سےکِسی نے مر جانا کیا جو تم آج ہی گانا ختم کرنے ضد کر رہے ہو۔ یہ سُن کر حزیں قادری
نے بھی ہتھیار ڈالدیۓ اور چُپ چاپ گھر تشریف لے آۓ، اور اگلے دن رشید عطرے صاحب کا انتقال ہوگیا، اُن کی اِس طرح اچانک موتفلم اِنڈسڑی کے لئے کِسی بہت بڑے سانحے سے کم نہیں تھی۔ اُن کے جانے کے بعداُن کی UNDER PRODUCTION فلموں کو اُنکے ہونہار بیٹے وجاہت عطرے نے Complete کروایا اور آنے والے وقت میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے حزیں قادری صاحب اورعطرے صاحب کا سفر چار (4) فلموں کے بعد اِختتام پذیر ہوگیا
5.( ہصفدر حسین )
بے پناہ خوبصورت دھنوں کے خالق دھیمے لہجے میں بات کرنے والے نہایت شریف اِنسان تھے۔اُن کی فلم
“ نوراں” کا میوزک آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے ، اِن کی تخلیق کردہ دُھنوں نے ایک زمانے کو مسُحور کیا ، حزیں صفدر شراکتداری میں نو (9) فلمیں بنیں
6.( رفیق علی )
حزیں صاحب کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے دونوں کے گٹھ جوڑ میں چھ ( 6 ) فلمیں بنیں۔
7. ( خادم حسین فیضی )
حزیں قادری صاحب کے ساتھ صرف ایک فلم ( سچے موتی ) کی
8. ( طفیل فاروقی )
آٹھ ( 8 ) فلموں تک حزیں صاحب کا ساتھ بنھایا۔
9. ( حُسن لظیف )
دونوں کے Banner پر ایک فلم پایہ تلکمیل تک پہنچی اور سنیما کی زینت بنی۔
10. ( ماسٹر عاشق )
اور حزیں صاحب پانچ فلمیں اکھٹے کیں۔
11. ( سلیم اقبال )
نے حزیں قادری صاحب کی ہمراہی میں تین (3) فلموں کے ساتھ یہ سفر طے
12. ( وزیر افضل )
نہایت سُریلے موسیقاروں کی فہرست میں نمبر ون کے آس پاس نظر آتے ہیں۔پاکستان کے اسیے فنکار جن کے گانوں کو بھارت میںکاپی کیاگیا، حزیں صاحب کے کام میں اِنہوں نے اُنّیس (19) فلموں کا حصہ ڈال
13. ( بھگ جی )
مشہور موسیقار اور طبلہ بجانے میں یدطولی رکھنے والے Musician طافو صاحب کے بھائی تھے،ایک سے زیارہ سازوں کو بجانےکے ماہر تھے، اِن کا شمار پاکستان کے بہترین Musicians میں ہوتا ہے۔اِنہوں نےشائد منہ کا زائقہ بدلنے کے لئے ایک فلم کا میوزکدیا تھا۔جس کے گانے حزیں صاحب کے قلم کے مرہون منت تھے۔
14. ( سرور حسین )
صرف ایک ( 1 ) فِلم میں حزیں صاحب کے ہم رَکاب رہے۔
15.( ماسٹر عبداللہ )
زبان پے بارِ خدایا یہ اِس کا کام آیا،ہمشہ اپنے کام سے غیر مطمئن دل میں ہر وقت اور اچھا کرنے کی لگن کسِی کو خاطر میں نہ لاتےتھے۔میڈم نورجہاں کے ساتھ اُن کے جھگڑے خبروں کی رینت بنے۔ اسیےفنکارتھےجن کا اِنتظار صدیاں کرتی ہیں۔نۓ نۓ لوگوں کو گانےکا چانس دنیے میں زرا چھجک محسوُس نہیں کرتے تھے۔ اِن کی وجہ سے بہت سے نۓ گانے والوں کو اُن کا مقام ملا۔ماسٹر عبداللہحزیں قادری جوڑی نے سترہ ( 17 ) فلموں کے میوزک میں حصہ ڈالا اور ایک سے بڑھ کر ایک شاہد کار تخلیق کیا۔
16.( بخشی وزیر )
یہ ود دوستوں کی جوڑی تھی، کامیاب موسیقار میں اِن کا شمار ہوتا ہے اِن کے ساتھ حزیں قادری کا سفر آٹھ ( 8 ) فلموں تک رہا۔
17. ( ایم اشرف )
پاکستان فلم اِنڈسڑی میں شاہد ہی کوئی دوسرا موسیقار اِتنا مصروف رہا ہو، یہ پنجابی اور اُردو میں یکساں مقبول تھے، اُنہیوں نےحزیں قادری صاحب کے ساتھ مل کر نو ( 9 ) فلموں کا میوزک
18.( فضل ارطاف )
اِن کا سفر ایک فلم تک محدود رہا
19.( نذیر علی )
بڑے گُنی فنکار تھے،دھائیوں تک فلم اِنڈسڑی سے اپنے فن کا لوہا منوایا۔” لا شہباز قلندر سے خاص اُنس تھا حضرت عثمان مَروندیلال شہباز قلندر پر لکھی گئ منقبتوں کی موسیقی بنانے میں اَسّی فیصد حصہ نزیرعلی صاحب کا تھا،اِن کا مشہور واقع آج زبان
زد خاص و عام ہے کہ ایک منَقَبت کی اَستھائی ہوائی جہاز کے سفر میں لکھی گئی جس کے بول یوں
“شہباز کرۓ پرواز تے جانے راز دلاں دے
جنوندے رۓ تے لال قلندر آن ملا گے “
نذیر علی اور حزیں قادری کا سفر طویل عرصے تک جاری رہا اِن دونوں کی جوڑی باسٹھ (62) فلموں کے TITLE پر جگمگائی اللہ دونوں کو غریق رحمت کرۓ ( آمین)۔
20.( اسحاق علی )
نذیر علی کے سگے بھائی تھے ایک فلم میں دو(2) گیت اِن کے نام سے منئسوب ہیں۔اِس لئے اِن کا نام الگ سے لِکھ رہی ہوں،بعد میںوہ اپنے بھائی نذیر علی صاحب کے معاون کے طور پر کام کرتے
21.( وجایت عطرے )
اپنے غطیم باپ کی وفات کے بعد فلم اِنڈسڑی کے منظر نامے میں نُمودار ہوۓ،پوت کپوت اور سپوت والی مشال میں خود کو سپوت پابت کیا اور اپنے والد کے کام کو واپیس سے شروع کیا جہاں رشید عطرے اُسے چھوڑ کر گئے تھے،وجاہت حزیں صاحب کے بچوں کی طرح تھے، آٹھ کا ہندسہشاہداُنکے لئے خوش قسمتی کی علامت تھا۔ کیونکہ اَسّی دہائی میں ہر دوسری فلم کا منیوزک ڈائیریکڑ وجاہت عطرے تھا۔وجاہت عطرےاور حزیں صاحب کے Combination میں تریپن فلمیں (53 ) بنیں۔
22. ( قادر علی )
پہلے پہل قادر علی شگن لال نام پھر قادر علی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مشہور کلاسیکل گائیگ اُستاد غلام حُسن شگن کے بیٹےموسیقی کے سارےاِسرار و رموز سے واقف ، حزیں قادری صاحب کے ساتھ تین ( 3 ) فِلموں میں ساجھے داری نبھائی۔
23.( چندر موہن بیلی رام )
کہتے ہیں پاکستان بننے سے پہلے اس نام پر ایک میڈیکل سٹور ہوتا تھا شاہد مال رود پر کہیں تھا۔ چندر موہن بیلی رام دونوں مشہور موسیقار “ کمال احمد” کے Assistant تھے۔ ایک ( 1 ) کی تھی۔ حزیں قادری صاحب کے ساتھ ۔
24.( طافو صاحب )
اِن کے بارے میں پہلے بتا چکُی ہوں کہ پاکستان کے چند بہتریں طبلہ نوازوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے حزیں قادری صاحب کی سنگت میں گیارہ فلموں کا میوُزک دیا۔
25.( اے حمید )
اِن کا زیادہ تر کام قومی زبان کی فلموں میں اُجاگر ہوا۔بابا کے ساتھ ایک (1) فلم کے میوزک میں شریک ہوۓ۔
26.( فروز نظامی )
اِن کے اور حزیں قادری صاحب کے نام پر ایک فلم نے سنیما سکریں دیکھی
۔( 1 )
27.(ماسٹر طفیلحسین )
دونوں کے اِشتراک میں ایک فلم بنی۔
28.(ایم اے شاد)
حزیں قادری کے ساتھ ایک فلم کی۔ 29.( ماسٹر عنایت حیسن)
پپاکستان ے بہت بڑے موسیقار تھے۔قومی زبان کی فلموں میں دھوم مچائی، حزیں قادری صاحب کے چار فلمیں کیں۔
30.(کمال احمد)
اِن کے کھاتے میں حریں قادری کے ساتھ دو فلمیں ہیں
I pay a quick visit day-to-day a few blogs and information sites to read posts, however this blog presents quality based posts. Oriana Wittie Raynata
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
thankx you sir
asma qadri
If you want to use the photo it would also be good to check with the artist beforehand in case it is subject to copyright. Best wishes. Aaren Reggis Sela
yes I will try
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
asma qadri
i will try and thanks you
asma qadri
Hosts were very welcoming and friendly. Pool was cool and clean. The chalet was very clean and cosy. Natalina Lothario Chap
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
asma qadri
Lots of thankx to visit I’m a daughter of Hazeen Qadri shab
asma qadri
I am genuinely thankful to the holder of this web site who has shared this impressive article at here. Cati Tamas Dinsmore
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
asma qadri
I’m proudly say my father Hazeen Qadri bcz I love my Abu G
asma qadri
Thank you ever so for you article. Much thanks again. Awesome. Papagena Caldwell Graner
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
thankx you sir to visit my web site
my proud father Hazeen Qadri
asma qadri
I pay a visit everyday a few sites and websites to read articles, except this web site presents feature based articles. Fara Corrie Vanthe
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
asma qadri
So for the late reply thankx you
my proud father Hazeen Qadri
asma qadri
I cannot thank you enough for the blog post. Thanks Again. Want more. Dierdre Mathew Hartfield
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
pleasure sir really I’m daughter of Hazeen Qadri
asma qadri
You are there to work on your technique, train, and make practice. Guillema Lindsay Simmonds
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asna Qadri
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
So thankx you visit the web site me daughter of Hazeen Qadri
asma qadri
I go to see daily a few blogs and sites to read articles, however this web site provides quality based content. Janaya Dwight Wilda
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Ama Qadri
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
my pleasure me a daughter of Hazeen Qadri
asma qadri
I read this while I ignored someone sitting next to me. Belle Wait Jeaz
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
It’s a pleasure sir and thankx to visit website im a daughter of
Hazeen Qadri shab
asma qadri
Pretty! This has been an incredibly wonderful post. Thank you for providing this info. Ekaterina Kellby Fayth
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
It’s my pleasure Sir I’m a daugther of Hazeen Qadri Shab say thankx you so much visit the
website
asma qadri
So thankx you I’m daughter of Hazeen Qadri Shab
asma qadri
Very interesting details you have remarked, thanks for putting up. Lanae Graig McDade
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
From
Asma Qadrri
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
I’m a daugther od Hazeen Qadri Shab my heart say thanks you
asma qadri
Sir its my pleasure I’m a daughter of Hazeen Qadri lots of thankx you
asma qadri
thankx you sir
Major thanks for the article post. Really looking forward to read more. Want more. Elonore Raynard Nierman
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
From
Asma Qadri
Thanks you so much I’m a daughter of Hazeen Qadri Shab My heart say thankx again
Asma Qadri
thankx you sir its my pleasure
asma qadri
Way cool! Some very valid points! I appreciate you penning this article and also the rest of the website is very good. Adrienne Onfroi Sidon
MY PLEASURE SIR
ASMA QADRI
Wow, this paragraph is fastidious, my younger sister is analyzing these kinds of things, therefore I am going to let know her. Adiana Ab Cotterell
LOTS OF THANKX YOU
ASMA QADRI
Some genuinely good stuff on this web site, I enjoy it. Olympia Ambrosi Vasilek
SIR THANKX YOU TO VISIT WEBSITEC
ASMA QADRI
Some really prize content on this web site , saved to favorites . Anny My Melva
THANKX YOU
ASMA QADRI
This is very interesting, You are a very skilled blogger. I have joined your feed and look forward to seeking more of your great post. Also, I ave shared your web site in my social networks! Alberta Jerrold Hadik
thankx you